شرَفِ عالم
میں: مجھے آج کی گفتگو کے عنوان نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے، پہلی بات تویہ کہ جہاں تک میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے، ’’انقلاب انقلاب، اسلامی انقلاب‘‘ کی اس گردان، اس نعرے کی گونج قیام پاکستان کے بعد سے اس ملک کے طول وعرض میں کہیں مدھم اور کہیں پوری شدت کے ساتھ سنائی دیتی رہی ہے۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ کا نعرہ، جدوجہد آزادی کے دوران نہ صرف سب سے بڑا محرک ثابت ہوا بلکہ حصول آزادی کے بعد تشکیل پاکستان کے ابتدائی مراحل میں نظریاتی اور فکری اساس کی بنیاد بھی بنا۔ تو پھر ہمیں آزادی کے بعد چند ہی سال کے اندر انقلاب، انقلاب، اسلامی انقلاب کے اس نئے اور ولولہ انگیز بیانیے کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
وہ: تمہاری اس بات سے اتفاق کرنا مشکل ہے، کیوں کہ اسلامی انقلاب کا نعرہ ایک جوشیلے ایمانی بیانیے کے باوجود پاکستان میں کبھی بھی عوام کی آواز نہیں بن سکا۔ یہ تو صرف اسلامی جمعیت طلبہ کے فرزانوں اور جماعت اسلامی کے دیوانوں کا ایک وقتی جوش وجذبہ تھا، جو شاید اب کہیں ہوا میں تحلیل ہوگیا ہے۔
میں: میں بھی تمہاری بات سے کسی حد تک متفق نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے کہ اسلامی انقلاب کی توانا آواز وقت کی پکار کیوں نہیں بن سکی، لیکن یہاں ایک اور سوال سر اٹھا رہا ہے کہ ان فرزانوں اور دیوانوں کو اس پاک سرزمین پر از سر ِ نو اذان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ صدائے لاالہ کے بعد قیام پاکستان کی صورت میں نمازِ باجماعت تو ادا کی جاچکی تھی۔ کیا لا الہ الا اللہ اس وقت محض ایک سیاسی ضرورت تھی یا پرجوش مسلمانوں کی دینی حمیت کو مہمیز دینے کا ایک ہتھیار؟
وہ: اس بات کو ذرا تاریخی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی حمیت اور اتحاد تو ۱۹۲۲ء میں عثمانی خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی تقریباً دم توڑ چکا تھا، اشتراکیت اور سرمایہ دارانہ نظام نے کم و بیش ساری دنیا میں مذہب کو گھر، بازار اور ریاست سے بے دخل کرکے صرف عبادت گاہوں تک محدود کردیا تھا۔ عالمی استعمار بالخصوص اسلام کے حوالے سے اپنے اس ایجنڈے پر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ عمل پیرا تھا کہ اللہ اور رسول ؐ سے محبت کی بنیاد پر برسوں سے قائم مسلمانوں کی اس دینی وحدت کو پارہ پارہ کردیا جائے۔ ایک ایسے ماحول میں جب تمام مسلمان اقوام ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا کی صورت حال سے دوچار تھے، لاالہ الا اللہ کا برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انگریز حکمرانوں اور ہندوئوں سے بیک وقت آزادی کی بنیاد بننا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
میں: لیکن میرا خیال ہے کہ جدوجہد ِ قیام ِ پاکستان کی پہلی بنیاد تو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعد کمپنی کی حکومت کی جانب سے ہندوئوں کی بے جاحمایت کے نتیجے میں مسلمانوں کا وہ استحصال بنا جس کا انجام انگریزوں سے نفرت اور ہند ومسلم اختلاف کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے اقتصادی مسائل کا حل ہی نہیں بلکہ ایک ہندو اکثریت والے خطے میں اپنی مذہبی آزادی اور تہذیبی شناخت کو بچانے کا ذریعہ بھی تھا۔
وہ: تمہاری بات یقینا درست ہے کہ پاکستان کے قیام کی یہی دو بنیادی وجوہات تھیں یعنی مسلمانوں کی معاشی خودمختاری اور مذہبی وتہذیبی شناخت کا تحفظ۔ ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کے بتائو کیا یہ دونوں مقاصد حاصل کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں؟۔ معاشی خودمختاری کی باتیں پے رول پہ کام کرنے والے ہمارے نادان حکمرانوں کی جملے بازیوں اور ان کو ہمارے سروں پر بٹھانے والے عاقبت نااندیشوں کی کم عقلی سے زیادہ کچھ نہیں اور رہی بات مذہبی وتہذیبی شناخت کی تو ہمارا اسلامی جمہوریہ پاکستان آزادی کے بعد سے ایک دن کے لیے بھی نہ اسلامی ہوسکا اور نہ جمہوری مملکت کی ایک جھلک اس ریاست کو لمحہ بھر کے لیے بھی نصیب ہوئی۔ دیوانِ عام کی پیشانی پر جلی حروف میں وہی کلمہ ِ پاک لکھا ہے جو اس ملک کے قیام کی بنیاد بنا اور اس چھت کے نیچے نہ جانے کتنے ایسے قوانین منظور کیے گئے جو اللہ اور رسولؐ کے احکامات کی نفی کرتے رہے۔ اس سے چند قدم کے فاصلے پر ملک کی وہ عدالت عظمیٰ ہے جہاں ان قانون سازیوں کو کبھی ملکی نظم ونسق کی ضرورت تو کبھی قومی اتحاد کی مصلحت کے نام پر مہر تصدیق لگائی جاتی رہی جس کے صدر دروازے پر بھی ’’لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو‘‘ کی عظیم الشان آیت ِ قرآنی اس کے قیام سے لیکر آج تک اسی طرح موجود ہے۔
اگر غور کرو تو لاالہ الا للہ کو ہم نے اپنے ہر ادارے، ہر تختی، ہر چوراہے، ہر وردی کی زینت ضرور بنایا مگر اپنے دل کی دنیا سے کوسوں دور رکھا، کیوں کہ یہ تو دل کی دنیا بدلنے والا کلمہ ہے، وہ چودہ سو سال قبل عربوں کے دل کی دنیا ہو یا تحریک پاکستان کے دوران اس کلمے کے ساتھ لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی سرشاری کا عالم ہو۔ میں نے نہ جانے کتنے بزرگوں سے ان کی ہجرت کے احوال سنے ہیں جنہوں نے اس ارض پاک پر قدم رکھا تو فوراً سجدے میں گر گئے اور اس کی خاک کو اپنے چہرے کا نور بنالیا کیوں کہ ان کے دل اس کلمہ ِ حق سے پہلے ہی منور تھے۔ پر دل کی دنیا بدل جانے کے بعد اس کلمہ ِ حق کا لازمی تقاضا ہے کہ باہر کی دنیا بدلنے کی بھی ہر ممکن سعی کی جائے اور خدا اور اس کے رسولؐ کا کلمہ صرف چہرے مہرے اور لباس کی تراش خراش ہی سے ظاہر نہ ہو بلکہ ہر شعبہ زندگی میں اس کا اظہار ہو۔ پر اِن لٹے پٹے مجبور اور لاچار ایمان والوں کے پاس باہر کی دنیا بدلنے کی سکت تھی نہ اختیار۔ اور جن کے پاس اختیار تھا انہوں نے اسے اپنی شان کے خلاف سمجھا۔ مختار مسعود مرحوم نے اپنی کتاب ’آوازِ دوست‘ میں اس صورت حال کی بڑی دل سوز منظر کشی کی ہے ’’کارواں نے راہ میں ہی رخت سفر کھول دیا، لوگ شاد باد کے ترانے گانے لگے گرچہ منزل مراد ابھی نہیں آئی تھی‘‘۔
شاید اب تمہیں یہ بات سمجھ میں آئے کہ انقلاب انقلاب، اسلامی انقلاب کا نعرہ کیوں ناگزیر ہوا۔ پاکستان کے قیام کی اس نعمت بے بہا کی جو ناشکری ہم نے کی ہے کسی نے تو اس کی اصلاح اور درستی کا بیڑا اٹھانا تھا، کسی کو تو سجدۂ شکر بجا لانا تھا، کسی کو تو مفاد پرستوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کلمہ ِ حق بلند کرنا تھا، کسی کو تو لاالہ الا للہ کی اس جدوجہد کو کسی دنیاوی لالچ اور جاہ جلال کی چاہت کے بغیر آگے بڑھانا تھا۔ رہی یہ بات کہ اسلامی انقلاب کی توانا آواز وقت کی پکار کیوں نہ بن سکی اس پر کسی اور نشست میں تفصیل سے بات کریںگے۔
آج کی گفتگو کا اختتام ان اشعار پہ کرتے ہیں، بقول شاعر
وہ کہانی جو تھی عنوان کے بیچ
کھو گئی زیبِ داستان کے بیچ
لاالہ پر تو رکھی تھی بنیاد
پر ہوس آگئی ایمان کے بیچ