پاکستان اور روس ریل رابطے کا فیصلہ

199

گزشتہ دنوں پاکستان اور روس کے مابین دوطرفہ تجارت سمیت 8 اہم معاہدوں پر دستخط کر دیے گئے۔ پاکستان اور روس کے درمیان 9 ویں بین الحکومتی کمیشن کا اجلاس ماسکو میں ہوا جس میں وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد لغاری وفد کے ہمراہ شریک ہوئے۔ دونوں ممالک کے درمیان صنعتی شعبے کے علاوہ تجارتی و معاشی تعاون کے فروغ کے معاہدے طے پا گئے ہیں۔ جبکہ پاکستان اور روس میں ریل کے ذریعہ رابطہ قائم کرنے پر کام شروع کر دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں پہلی آزمائشی مال گاڑی مارچ 2025 تک پاکستان پہنچے گی، دونوں ممالک نے ماسکو میں پروٹوکول پر دستخط کردیے ہیں۔ یہ ٹرین ترکمانستان اور ایران تفتان کے راستے پاکستان میں داخل ہوگی۔ یہ دونوں ممالک میں باہمی تجارت کو فروغ دینے کے لیے ایک سنگ میل ہوگا۔ پاک روس بین الحکومتی کمیشن (آئی جی سی) کے اجلاس میں پاکستانی وفد کے سربراہ سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ ریل روٹ قائم ہونے سے روسی تیل، گیس، مشینری، اسٹیل، زرعی پیداوار، معدنیات اور کنزیو مر گڈز اور دیگر صنعتی مصنوعات کی پاکستان کے درآمد اور برآمد ممکن ہو سکے گی۔ کامسیٹس اور پشاور یونیورسٹی کے روسی تعلیمی اداروں کے ساتھ معاہدے ہوئے جبکہ انسولین کی تیاری کے حوالے سے بھی دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہوا۔ نیشنل وکیشنل ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کمیشن نے روسی یونیورسٹی کے ساتھ ایم اویو پر دستخط کیے۔ دریں اثناء چین اور پاکستانی کاروباری اداروں کے درمیان تعاون کے 9 معاہدوں پر دستخط کر دیے گئے ہیں جن کی کل مالیت 1.918 ملین یوآن (تقریباً 263.8 ملین ڈالر) ہے۔ ان معاہدوں پر دستخط کنمنگ کیچینگ گونگ میں منعقدہ ای کامرس پر ایک تزویراتی تعاون سربراہ اجلاس کے دوران کیے گئے۔ یہ معاہد ے مختلف شعبوں پر محیط ہیں، جس میں بیرون ملک سرمایہ کاری، در آمد و برآمد، معدنیات اور ایسک کی تجارت، زرعی مصنوعات اور ڈیجیٹل معیشت شامل ہے۔

عالمی استعمار کی تمام تر سازشوں کے باوجود پاکستان علاقائی اتحاد میں اپنی جگہ مستحکم کر رہا ہے، ایک ہی دن میں روس اور چین کے ساتھ ایم اویوز کے بجائے براہ ر است معاہدے ہو نا اہمیت کا حامل ہے۔ روس کے ساتھ ریل کا رابطہ بحال ہونا، صرف پاکستان ہی نہیں پورے خطے کی تجارت اور روابط کے لیے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اس سے پاکستان اور وسط ایشیاء خصوصاً روس کے ساتھ تجارت کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، روسی مصنوعات کی پاکستان کو فراہمی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات اور فوڈ پروڈکٹس کے لیے روسی مارکیٹ بھی دستیاب ہو سکے گی۔ اس سے طویل راستوں سے بحری تجارت پر انحصار کم ہو گا جو عموماً مہنگا اور سست رفتار ہوتا ہے۔ ایران اور ترکمانستان میں پہلے ہی سے ریل رابطہ موجود ہے اور ایران سے پاکستان میں ریلوے لائن زاہدان سے تفتان تک آتی ہے جبکہ روس اور ترکمانستان میں ریل کوریڈور پہلے ہی سے قائم ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی تجارت میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اس سے پاکستان کی وسط ایشیائی مارکیٹوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاک روس ریل روٹ کے ایران کے راستے ممکن ہو جانے سے دیگر کئی طرح کی علاقائی بلیک میلنگ کا بھی خاتمہ ہوگا۔ کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت پوری دنیا میں تجارت، معیشت اور عالمی سیاست کے حوالہ سے جونئی صف بندی ہو رہی ہے، اس میں علاقائی رابطے اور روٹس انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، پوری دنیا میں چار روٹس کو اہمیت دی جارہی ہے، ایک چین کا بی آر ٹی آئی، سی پیک جس کا فلیگ شپ پروگرام ہے، دوسرا نارتھ ساؤتھ ٹریڈ کوریڈور، جس کا پاکستان حصہ بن چکا ہے، تیسرا پاکستان سے وسط ایشیاء ٹرانسپورٹ روٹ ہے جس میں پاکستان مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور چوتھا امریکا کا افریقا ایشیا اور یورپ کو ملانے والا مجوزہ کوریڈور ہے، جو ابھی کاغذات پر ہے، اس کے لیے ابتدائی کام بھی مکمل نہیں ہوا۔ پاکستان اس میں شامل نہیں ہے، اب یہ پاک روس ایک نیا تجارتی روٹ قائم ہورہا ہے، جس کے لیے کچھ بھی نیا کرنے کی ضرروت نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ایک ایسے وقت میں جب علاقائی اتحاد کے اہم پلیئر اور پاکستان کے دوست ملک پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار بیٹھے ہیں، پاکستان کو چاہیے کہ اب اپنا گھر ٹھیک کرنے پر توجہ دے۔ المیہ یہ ہے کہ جب بھی پاکستان کو ایک قوت کے طور پر ابھرنے کا موقع ملتا ہے، ہماری بیورو کریسی جس میں اکثریت امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ دہری شہریت کے رشتے میں بندھی ہے، پاکستان کے راستے میں رکاوٹ بن کر سامنے آجاتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور معاشی ترقی کے لیے قائم خصوصی کمیٹی متوجہ ہوں اور سرمایہ کاری و صنعتی ترقی کے لیے جدید ضروریات کے مطابق پالیسی تیار کریں، اس کی پارلیمنٹ سے منظوری لی جائے اور ملکی وغیر ملکی ہر سرمایہ کار کو سرمائے کے تحفظ کے ساتھ ساتھ بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں سے چھٹکارے اور پالیسیوں کے تسلسل کی آئینی ضمانت دی جائے۔ اگر حکومت اس موقع پر اپنی ذمے داریاں پوری کرتی ہے، اور کرپشن، سرکاری اخراجات اور اشرافیہ کی عیاشیوں پر کنٹرول کر لیتی ہے تو پاکستان کو چند ماہ کے اندر معاشی استحکام سے کوئی نہیں روک سکتا جبکہ ایران گیس پائپ لائن سے متعلق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن سے منصوبے پر رعایت لینے کی کوشش کریں گے، اگر ہمیں کسی بھی طرح رعایت مل جاتی ہے تو ہمارے لیے اچھا ہوگا۔ مصدق ملک نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں پٹرول پمپوں کی ڈیجیٹلائزیشن ہوجائے، اس سے شفافیت آئے کی اور اسمگلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی، کیونکہ ریفائنریز سے ڈپو تک ڈیجیٹلائزیشن ہے، پمپوں تک نہیں، کل لاگت کے حوالے سے مارجن میں اضافے کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کمپنیوں کے بورڈز میں تعیناتی کے لیے 40 لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے لیکن کسی بھی بورڈ میں سیاسی تعیناتیاں نہیں کی جائیں گی، وزیراعظم کی منظوری کے بعد بورڈ ارکان تعینات کر دیے جائیں گے۔ بورڈز ارکان کے نام وزیر اعظم کو بھجوا دیے ہیں، نامزد افراد سیکورٹی کلیئرنس ہوتے ہی کمپنیوں کے بورڈز بن جائیں گے۔ ڈاکٹر مصدق ملک نے یہ بھی واضح کیا کہ روس کے ساتھ پہلے ڈیل چینی بینک کے ذریعے ہوئی تھی لہٰذا ہمیں ڈیل کے لیے نیا اسٹرکچر بنانا پڑے گا، روس سے خام تیل کی خریداری کا معاہدہ ملکی مفاد کو مدنظر رکھ کر کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی آر ایل اور سعودی کمپنی کا 1.7 ارب ڈالر کا معادہ طے پا گیا ہے۔ گرین فیلڈ ریفائنری منصوبے پر دوبارہ فیزیبلٹی رپورٹ جمع کرائیں گے، گرین فیلڈ ریفائنری منصوبے میں 8 سے 10 ارب کی سرمایہ کاری ہوگی۔

پاکستان اور روس کے مابین حالیہ پیش رفت اس بات کی غماز ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں جو عملی اور باہمی ضروریات پر مبنی ہیں۔ تاریخی طور پر ان دونوں ممالک کے تعلقات سرد جنگ کے زمانے میں سرد مہری کا شکار رہے جب دونوں ممالک اپنے اپنے اتحادوں کے ساتھ وابستہ تھے، تاہم اب عالمی جغرافیائی حالات میں تبدیلی آئی ہے اور اس کے ساتھ ہی ماسکو اور اسلام آباد کے درمیان تعاون کی اسٹرٹیجک اہمیت بھی بڑھ گئی ہے۔ روس کے وزیراعظم کی دوماہ قبل اکتوبر میں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت اس تبدیلی کی ایک بڑی علامت تھی، اس کے علاوہ روسی فیڈریشن کونسل کی اسپیکر ویلین ٹینا میٹویئنکو کا پاکستان کا دورہ اور پاکستان کے سینیٹ میں ان کا خطاب اس تعلقات میں ایک نیا موڑ ثابت ہوا ہے۔ میٹویئنکو نے اپنے خطاب میں توانائی، تعلیم اور پارلیمانی تبادلوں سمیت کئی اہم شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا جو دونوں ممالک کے لیے اہم سنگ میل ثابت ہو گا، یہ بات واضح ہے کہ روس عام طور پر ایسے ممالک یا علاقائی معاملات میں دلچسپی نہیں لیتا جہاں ان کے مفادات شامل نہ ہوں۔