موبائل کمپنیوں کا صارفین کی جیبوں پر ڈاکا

182

موبائل نیٹ ورک کمپنیاں جدید دور میں رابطے کی سہولت فراہم کرنے کے بجائے صارفین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ ناقص سروس اور بے جا کٹوتیوں کی صورت حال اس قدر سنگین ہو چکی ہے کہ عدالتوں کو بار بار ان کے خلاف فیصلے دینے پڑ رہے ہیں۔ حالیہ واقعے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک نجی موبائل نیٹ ورک کی درخواست خارج کرتے ہوئے انہیں 2 ارب سے زائد کی رقم صارفین کو واپس کرنے کا حکم برقرار رکھا۔ اس فیصلے کا صاف مطلب ہے کہ موبائل کمپنیاں اپنی من مانی کرتے ہوئے صارفین کے حقوق پامال کر رہی ہیں۔ یہ کمپنیاں ہر 100 روپے کے ری چارج پر 25 روپے تک مختلف بہانوں سے کاٹ تی رہی ہیں، جو سراسر زیادتی ہے۔ اس کے علاوہ کالز اور میسجز پر الگ سے چارجز عائد کیے جاتے ہیں، اور اپنی مرضی سے سروسز جیسے کالر ٹیون لگا کر صارفین کو غیر ضروری اخراجات میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔ انہیں ایسے چارجز کے بارے میں مطلع کیا جاتا ہے جو انہوں نے استعمال ہی نہیں کیے۔ عدالت عظمیٰ نے 2018 میں ہی موبائل ریچارج پر اضافی چارجز لینے سے روک دیا تھا، لیکن کمپنیاں مختلف تاویلوں کے ذریعے صارفین کو لوٹنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پی ٹی اے نے جب ان کے غیر قانونی چارجز واپس کرنے کا حکم دیا، تو بجائے عمل کرنے کہ، یہ کمپنیاں عدالتوں کا سہارا لے کر اپنے جرائم کو چھپانے کی کوشش کرتی رہیں۔ یہ صورت حال نہ صرف صارفین کے لیے مایوس کن ہے بلکہ حکومتی اداروں کے لیے ایک چیلنج بھی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ موبائل کمپنیوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور ان کے استحصال کو روکے۔ ساتھ ہی صارفین کو بھی اپنی آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ ان کا حق محفوظ رہے۔ موبائل کمپنیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ عوام کی سہولت کے لیے ہیں، نہ کہ ان کی مشکلات بڑھانے کے لیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں ایسی کمپنیاں اپنے کاروباری رویے میں شفافیت لائیں اور صارفین کے ساتھ ہونے والے ظلم کا سلسلہ ختم ہو۔