نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی
معانی: مراد قوم کے رہنما، مصلحین۔ نشہ: شراب۔ گرتوں کو تھام لینا: جو گر رہے ہیں انہیں سنبھالنا، پستیوں سے نکالنا۔
مطلب: اس نظم کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال اپنے عہد کے بعض ایسے رہنماؤں پر طنز کیا ہے جو ذاتی مفاد کے لیے اپنے پیرووَں کو مذہب اور سیاست کے نام پر استعمال کرتے تھے۔ فرماتے ہیں شراب پلا کر ہر کوئی دوسرے کو بدمست اور مدہوش کر سکتا ہے اور اس بدمستی اور مدہوشی میں پینے والا زمین پر ہی گرتا ہے لیکن ساقی کا کام محض مدہوش کرنا ہی نہیں ہے بلکہ گرتے ہوؤں کو تھامنا بھی ہے۔ مطلب یہ کہ ذاتی مفاد کے لیے دوسروں کو پستی سے ہمکنار کرنا تو سب کو آتا ہے تاہم حقیقی رہنمائی کا لطف اس عمل میں ہے کہ پستی میں گرنے والے کو سہارا دے۔