ہم نے گزشتہ مضمون میں جنوبی ایشیا میں ایک متوازن خارجہ پالیسی کی اہمیت کے حوالے سے چند نکات پر بحث کرتے ہوئے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لینے کی ایک کوشش کی تھی اور آج اسی تسلسل میں پاکستان کی جانب جاپان کی خارجہ پالیسی کا بھی ایک تنقیدی جائزہ لیا جارہا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان سفارت کاری میں بہتری کے امکانات اور اس سلسلے میں درپیش چیلنجز کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان کے حوالے سے جاپان نے اپنی پالیسیوں میں جو نیا زاویہ اختیار کیا ہے وہ خاصا پیچیدہ ہے۔ خاص طور پر جس طرح انڈو پیسیفک خطے میں پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے جاپان نے اپنے تعلقات کو مختلف ممالک کے ساتھ دوبارہ ترتیب دیا ہے اس پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ جاپان کی اس پالیسی کا آغاز 2007 میں آنجہانی وزیراعظم شنزو آبے کے بھارتی پارلیمنٹ میں خطاب سے ہوا تھا، جس میں انہوں نے بھارت اور جاپان کے تعلقات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ’’بروڈر ایشیا‘‘ کی بات کی تھی۔ اس کے بعد جاپان نے انڈو پیسیفک خطے میں اپنے مفادات کے مطابق پالیسیوں کو ڈھالا ہے، جس میں خاص طور پر بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں اضافہ اور پاکستان سے نسبتاً دوری کی حکمت عملی شامل ہے۔ جیسا کہ جاپان کی انڈو پیسیفک پالیسی کا آغاز 2007 میں شنزو آبے کے خطاب سے ہوا، جس میں انہوں نے بھارت اور جاپان کے تعلقات کو مضبوط کرنے کی بات کی۔ انہوں نے اسے ’’بروڈر ایشیا‘‘ کا حصہ قرار دیا، جو کہ مشرقی ایشیا اور جنوبی ایشیا کا امتزاج تھا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ بھارت اور جاپان ایک ساتھ مل کر اس خطے میں اپنے اقتصادی اور (اسٹرٹیجک) تزویراتی مفادات کو فروغ دیں۔ جاپان کی اس پالیسی میں اس بات کو واضح کیا گیا کہ بھارت اور جاپان دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کر کے اس خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کا مقابلہ کرنا ہے۔
جاپان نے اس پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے انڈو پیسیفک خطے کو ایک اہم تزویراتی اور اقتصادی زون قرار دیا، جو بھارت، جاپان، امریکا اور آسٹریلیا کے درمیان باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اس کا مقصد نہ صرف چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی اور فوجی طاقت کا مقابلہ کرنا تھا بلکہ ایک ایسا مضبوط نیٹ ورک بنانا تھا جس میں جاپان ایک اہم کردار ادا کرے۔
پاکستان کے ساتھ جاپان کے تعلقات میں گزشتہ کئی برسوں سے فاصلہ محسوس ہورہا ہے۔ جاپان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات میں سرد مہری کا جائزہ لیا جائے تو اس کے پس پشت چند اہم عوامل نظر آتے ہیں۔ جن میں سے ایک اہم وجہ چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے تعلقات ہیں، خصوصاً سی پیک جیسے منصوبوں کے ذریعے ان تعلقات کو ایک نئی مہمیز ملی ہے۔ جاپان نے تاریخی وجوہات کی بنا پر چین کو ہمیشہ اپنے اسٹرٹیجک حریف کے طور پر دیکھا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگیاں آئیں۔ جاپان کی خارجہ پالیسی نے بھارت کو ترجیح دی ہے کیونکہ بھارت چین کے اثرات کو محدود کرنے میں جاپان کا ایک اہم اتحادی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ساتھ جاپان کے اقتصادی تعلقات میں بھی کمی آئی ہے، جاپان نے جنوبی ایشیا میں بھارت کے ساتھ تعلقات کو زیادہ ترجیح دی ہے۔ جاپان کی اس حکمت عملی کو پاکستان نے غیرمتوازن محسوس کیا، کیونکہ پاکستان کو جنوبی ایشیا میں ایک اہم ملک ہونے کے باوجود جاپان کی جانب سے کم توجہ ملی۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنا ایک فطری قدم بن گیا۔
بھارت جاپان تعلقات کے تناظر میں پاکستان کے لیے چین کے ساتھ تعلقات میں اضافہ ایک فطری حکمت عملی بنتی جارہی ہے۔ سی پیک جیسے منصوبوں کی مدد سے چین نے پاکستان کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو بڑھایا، اور اس کے ساتھ ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات میں بھی مزید گہرائی آئی۔ پاکستان کو چین کے ساتھ تعلقات میں استحکام ملنے سے عالمی سطح پر اپنے تزویراتی مفادات کو بہتر طریقے سے پروان چڑھانے کا موقع ملا۔ پاکستان کی اس حکمت عملی کے پیچھے ایک اور بڑی وجہ جاپان کی جانب سے جنوبی ایشیا میں بھارت کو ترجیح دینا ہے، بھارت اور جاپان کے درمیان بڑھتا ہوا اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات ایک مضبوط اسٹرٹیجک اتحاد کی بنیاد فراہم کرتے ہیں، جو چین کے لیے ایک چیلنج ہے۔
جاپان کے لیے جنوبی ایشیا میں ایک متوازن سفارت کاری اس لیے بھی فائدہ مند ہے کہ وہ خطے کے اہم کھلاڑیوں سے اپنے تعلقات میں توازن برقرار رکھ کر عالمی سطح پر اپنی ساکھ کو مزید بہتر بناسکتا ہے۔ مزید برآں جاپان کے لیے جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ایک اہم حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ اگر جاپان پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرتا ہے تو اس سے نہ صرف پاکستان کو فائدہ پہنچے گا بلکہ جاپان کو بھی ایک تزویراتی پارٹنر کے طور پر پاکستان کے ساتھ تعلقات میں استحکام ملے گا۔ یہ جاپان کو عالمی سطح پر ایک متوازن پوزیشن فراہم کرے گا، جس سے اس کی طاقتور پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔
پاکستان کے لیے چین کے ساتھ تعلقات میں اضافہ اس کی فطری ضرورت ہے، اور اس سے جاپان کو بھی ایک پیغام ملتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھنا ضروری ہے۔ جاپان کو اپنی پالیسیوں میں توازن پیدا کرنا ہوگا تاکہ وہ دونوں ممالک کے ساتھ خصوصاً انڈو پیسیفک خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر اپنے تعلقات کو مستحکم کرے، جاپان کی انڈو پیسیفک پالیسی میں ایک متوازن سفارت کاری کا عنصر شامل کرنا اسے عالمی سطح پر مزید مستحکم کر سکتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں پاکستان اور بھارت دونوں کے ساتھ بہتر تعلقات جاپان کے لیے اس کی عالمی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا ایک موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ جاپان کو اپنے تزویراتی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں توازن برقرار رکھتے ہوئے، بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنا ہوگا۔ اس طرح جاپان نہ صرف انڈو پیسیفک خطے میں اپنے مفادات کی حفاظت کرے گا، بلکہ عالمی سطح پر اپنے اثرات کو بھی مستحکم کرے گا۔