ملک سے سگریٹ نوشی کے خاتمے کیلئے اداروں کی مشترکہ کوششیں

133

حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) الٹر نیٹیو ریسرچ انیشیٹو (اے آر آئی) ممبر تنظیم ہیومینٹیرین فار آرگنائزیشن سسٹین ایبل ڈپارٹمنٹ پاکستان اور اس کی ممبر تنظیموں، بشمولی ممبر تنظیم ہیومینٹیرین فار آرگنائزیشن سسٹین ایبل ڈپارٹمنٹ پاکستان نے پاکستان میں سگریٹ نوشی کے خاتمے کے لیے شہریوں، معاشرے اور اداروں کی مشترکہ کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اے آر آئی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ارشد علی سید نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ ہم نوجوانوں کو سگریٹ نوشی کے خطرات سے بچانے کے لیے متحد ہو جائیں۔ انہوں نے کہا کہ سگریٹ نوشی کینسر، دل اور سانس سمیت ایسی متعدد بیماریوں کی ایک بڑی وجہ بنی ہوئی ہے جو قابل بچا ہیں، نوجوان زیادہ خطرے سے دوچار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اکثر کم عمری میں سگریٹ نوشی کا شکار ہو جاتے ہیں، جو انہیں عمر بھر کے لیے اس عادت اور صحت کے مسائل میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اعداد وشمار کے مطابق اس وقت ملک میں 3 کروڑ 10 لاکھ افراد مختلف شکلوں میں تمباکو استعمال کرتے ہیں، ہر 5 میں سے 2 سگریٹ نوش 10 سال سے کم عمر میں سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں، گو کہ پاکستان نے 2004 میں عالمی ادارہ صحت کے فریم ورک کنونشن برائے ٹوبیکو کنٹرول (ایف سی ٹی سی) کی توثیق کی ہے لیکن اس کے باوجود یہ ان ممالک میں شامل ہے جہاں سگریٹ نوشی سے ہونے والی بیماریوں کا بوجھ بہت زیادہ ہے، پاکستان نے تمباکو نوشی کے خاتمے کے سلسلے میں کئی حوالوں سے پیش رفت بھی کی ہے، تاہم مکمل طور پر ایف سی ٹی کے مطابق اقدامات اُٹھانے اور تمباکو سے ہونے والی اموات میں کمی لانے کے لیے ابھی بھی ایک لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ ارشد علی سید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کی سگریٹ نوشی کو بڑے ہونے کی ایک عام علامت سمجھا جاتا ہے، ایک ایسی عادت کو بغیر کسی تشویش کے قبول کر لیا جاتا ہے جو زندگی بھر صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہے۔ انہوں نے تمباکو نوشی کے مضر صحت اثرات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اسکولوں اور کمیونٹیز میں جامع تعلیمی پروگرام بھی اس مہم کا حصہ ہونے چاہئیں۔ انہوں نے تمباکو نوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولیات کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی۔ اپنی اس عادت کو چھوڑنے کی کوشش کرنے والے افراد کی مدد کے لیے کونسلنگ اور تمباکو نوشی ترک کرنے کی خدمات و سہولیات تک رسائی پر مشتمل مضبوط نظام بنانے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین، ماہرین تعلیم و صحت، پالیسی سازوں اور سماجی رہنمائوں کو سگریٹ نوشی سے پاک پاکستان بنانے کے لیے مشترکہ طور پر کام کرنا چاہیے، ملک بھر میں فوری طور پر مشترکہ کوششیں شروع کی جانی چاہئیں۔