اسٹیبلشمنٹ کو امریکا سے اجازت مل جائے تو عمران خان سے مفاہمت ممکن ہے

73

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) اسٹیبلشمنٹ کو امریکا سے اجازت مل جائے تو عمران خان سے مفاہمت ممکن ہے‘ مذاکرات کی آڑ میں پی ٹی آئی کو ڈیل یا ڈھیل نہیں ملے گی‘ عمران خان قومی مجرم ہیں‘ احتجاجی سیاست نے کپتان کا مستقبل دائو پر لگا دیا‘ ملکی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مفاہمت ناگزیر ہے‘ مریم نواز گروپ مذاکرات میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم کے مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان، تحریک انصاف کے چیئرمین برسٹر گوہر، تحریک انصاف کے رہنما افتخار چودھری، تجزیہ کار مظہر طفیل، تجزیہ کار معراج الحق صدیقی، عمران خان کے وکیل فیصل چودھری، بزنس کمیونٹی کے نمائندے اور ملک گیر سطح پر بزنس گروپ کے سربراہ سجاد سرور اور فیڈریشن آف رئیلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’کیا عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت ہوسکتی ہے؟‘‘
بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ مذاکرات کے لیے پہلے ٹی او آرز طے ہوں گے، ایجنڈا طے کرنے کے بعد ہی بات آگے چل سکتی ہے تاہم اس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی شامل نہیں ہو گی‘ ان کے نزدیک یہ عدالتوں کا کام ہے اور اگر کسی کا خیال ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں ڈیل یا ڈھیل ملے گی تو یہ غلط فہمی ہے‘ یہ کہیں نہیں لکھا کہ کسی کو عام معافی دے دی جائے گی حکومت پہلے بھی سنجیدہ تھی اور اب بھی سنجیدہ ہے۔ عمر ایوب خان نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ حکومت اِن مذاکرات میں کتنی سنجیدہ ہے۔ برسٹر گوہر نے کہا کہ تحریک انصاف مذاکرات کی ہامی ہے اور اسی راستے سے جمہوریت کے استحکام کی راہ پیدا ہوگی‘ اب پارلیمان ہمیں مذاکرات کے ذریعے راستہ فراہم کرے‘ مذاکرات کے لیے تیار ہونا تحریک انصاف کا قابل تحسین اقدام ہے‘ سیاسی افراتفری کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت زبوں حالی کا شکار ہوئی‘ اس کا نتیجہ بدترین مہنگائی کی صورت میں سامنے ہے۔ افتخار چودھری نے کہا کہ مفاہمت ممکن ہے‘ کیوں نہیں؟ اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے معافی نہیں مانگ سکتی مگر اسٹیبلشمنٹ کو جب امریکا سے اجازت مل جائے گی تو سب کچھ بہتر ہوجائے گا‘ عمران خان اس ملک میں جمہوریت چاہتے ہیں اور اسی کی کوشش کر رہے ہیں۔ مظہر طفیل نے کہا کہ مفاہمت ممکن نہیں کیونکہ عمران خان مفاہمت کے قابل نہیں ہیں بلکہ یہ ایک قومی مجرم تصور کیے جاتے ہیں کہ ملک کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی کوشش میں تھے۔ معراج الحق صدیقی نے کہا کہ مفاہمت ہوسکتی ہے اور امریکی انتخابی نتائج کے بعد اس کے کچھ آثار بھی ہیں‘ پاکستان جس طرح سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے، وسیع تر اور مضبوط قومی اتحاد اس سے نمٹنے کا متقاضی ہے‘ بد قسمتی سے سیاسی اختلافات ذاتیات اور دشمنی تک پہنچ چکے ہیں جو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا باعث ہیں دیر آید درست آید، اب تحریک انصاف کی طرف سے حکومت کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے اسے ہر جمہوری سوچ رکھنے والے حلقے کی طرف سے سراہا گیا ہے‘ پاکستان کو کئی چیلنجز درپیش ہیں‘ دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے‘ دہشت گردی کے جان لیوا تواتر کے ساتھ واقعات ہو رہے ہیں‘ سیاسی استحکام ناپید ہو چکا ہے جس نے معیشت کو بری طرح نقصان سے دوچار کیا ہے جو مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کا سبب بھی ہے‘ ان چیلنجز سے وسیع تر قومی اتحاد کے ذریعے ہی نمٹا جا سکتا ہے جس کے اب امکانات پیدا ہوئے ہیں‘ امید کی جانی چاہیے کہ فریقین کسی مثبت نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔ فیصل چودھری نے کہا کہ مریم نواز گروپ مذاکرات میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے جب مذاکرات کا سلسلہ چل پڑا ہے تو رکاوٹیں کھڑی کرنے کا کیا مقصد ہے؟ حکومت میں شامل کچھ لوگ مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں‘ کمیٹی کی ملاقات جب عمران خان سے طے ہے تو انہیں روکنا تذلیل ہے‘مذاکراتی کمیٹی کے ارکان کو ملاقات سے روکنے پر ہم احتجاج کرتے ہیں۔ سجاد سرور نے کہا کہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں، اچھی سوچ کے تحت ناصرف جامع بات ہونی چاہیے بلکہ مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم بھی طے کرنا چاہیے‘ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے ہامی بھری ہے، ان کی اپنی ایک اہمیت ہے‘ بہت یہی ہے کہ مذاکرات ہوں اور ان کے ذریعے مسائل حل کرنے کی کوشش خوش آئند ہے کیونکہ بات چیت اور مکالمے ہی سے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ احتجاج و پرتشدد واقعات سے سیاسی مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے‘ اِس سے صرف تباہی برپا ہوتی ہے اور ملک کا نظام درہم برہم ہوتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جائے۔ اچھی بات یہی ہوگی کہ غیر مشروط بات چیت ہو اور اس میں سے خیر برآمد ہو‘ مذاکرات کا دروازہ کھولا ہی ہے، تو اسے کھلا رکھا جائے ‘ خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا ہے تو خلوصِ نیت سے آگے بڑھیں، ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں‘ کوشش کریں کہ مذاکرات کو کسی حتمی اور منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں‘ حالات جیسے بھی ہوں‘ مذاکرات کے عمل کو نقصان نہ پہنچے، اِسی میں سب کی بھلائی ہے احتجاجی پروگرام سے ملک کی معیشت اور گورننس کو ہی نہیں‘ خود پی ٹی آئی کو بھی ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جس کا مستقبل دائو پر لگ گیا ہے اس لیے پی ٹی آئی کی قیادت کو انتشاری سیاست کا راستہ ترک کر دینا چاہیے۔