زبان و بیان کے تجربات سراسر انفرادیت پر مشتمل ہیں،

60
ا فتخار فلک کاظمی کی جسارت سے گفتگو

افتخار مجاہد شاہ 22 رجب المرجب 1992   میںپہاڑ پور تھل تحصیل و ضلع لیّہ ، محلّہ سادات میں ایک سیّد گھرانے میں آنکھ کھولی۔مئی 2018 ء میں میری شادی اپنی چچازاد سے ہوئی ، میری پانچ سال کی ایک بیٹی ہے ابتہاج زہرہ۔تعلیم ؛ پرائمری تک جدید علّامہ اقبال پبلک ا سکول میں پڑھا تعلیم کو بوجھ سمجھ کر وقت گزارتا رہا تاہم والد صاحب اپنا پیٹ کاٹ کر پڑھاتے رہے اور یہ ہمارے علاقے پہاڑپور کا اس وقت واحد پرائیویٹ تعلیمی ادارہ تھا۔

میں میرے پہلے شعری مجموعہ “اذیّت” کے چھپنے کے بعد جو پذیرائی ملی وہ میری سوچ سے کہیں آگے کی تھی۔ اْس کی وجہ میرے اْس کتاب میں کیے گئے زبان و بیان کے لحاظ سے کچھ تجربات تھے جو کہ سراسر انفرادیت پر مشتمل تھے۔ میں نے جو سوچا لکھا اور اْس پر قارئین کے ردِ عمل کی ہرگز پروا نہیں کی۔ کرنے والوں نے کتاب کے نام پر اعتراض کیا ، کہیں کہیں اْن تجربات پر بْرا منایا گیالیکن میں دلی طور پر مطمئن تھا ہاں کچھ مخلص احباب کے مشوروں نے مجھے دو چار چیزوں کے بارے میں مزید سوچنے کی راہ دِکھائی جس پر میں اْن کا ہمیشہ شْکر گْزار رہوں گا ،،،، پہلی کتاب سے نمونے کے طور پر کچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔ اس کے چند اشعار پیش خدمت ہیں
پکڑ کر ہاتھ تیرا ناچتا ہوں میں اِک پاؤں پہ پْورا ناچتا ہوں
خْدائے حْسن کو چْھونے سے پہلے میں کمرے میں اکیلا ناچتا ہوں

اب دس سال بعد جب میری دوسری کتاب “عشق رقّاص” چَھپنے کے قریب ہے تو سب سے پہلا اور بار بار آنے والا خیال یہی ہے کہ پہلی کتاب 22 سال کی عمر میں چھپی جو میری پانچ سالہ شعری ریاضت کا نچوڑ تھی جب کہ اب میں نے 32 ویں سال میں قدم رکھا ہے
جب کہ اِس بار کم و بیش 120 غزلیات میں سے کڑا انتخاب کر کے 66 غزلیات کو کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔پہلی کتاب “اذیّت” کے نام کو لے کر کچھ احباب نے اْسے مایوسی کا استعارہ قرار دیا۔ اِس لیے اِس بار کتاب کے نام کے سلسلے میں ، میں نے پہلی بات تو کسی سے مشورہ نہیں لیا ، مشورہ لیا تو صرف اپنے دِل سے لیا۔ دوسری بات کے جنگل سے نکل کر سر سبزگی ، دل کشی و دل بَری کے سفر پر روانہ ہونے کے بعد جس جس منظر نے مجھے اپنی طرف کھینچا وہ عشق سے لبریز تھا۔ جس جس آواز نے میری سماعتوں کو اپنی طرف متوجّہ کرنے کے ساتھ ساتھ میرے پاؤں میں ارتعاشِ رقص پیدا کرنے اور میری ہم رقص ہو کر مجھ میں روشنی بھری مَیں اپنی اْس اجنبی مگر مْخلص ہم سفر کو “عشق رقّاص” سے بِہ تَر کوئی نام نہیں دے پایا۔