شاعری میں جدید اور قدیم لہجوں کا حسین امتزاج رکھا ہے

52
پاکستان کوئز سوسائٹی کےتحت ہونے والے مقابلے میں کامیاب ہونے والے شرکامہمانوں  کے ہمراہ گروپ فوٹو‎

معروف و مقبول شاعرہ ،ممتاز مصورہ اورعلم و ادب کی دنیا کا ایک روشن ستارہ فنونِ لطیفہ سے وابستہ ہر دلعزیز شخصیت محترمہ رضیہ سبحان قریشی کراچی میں پیدا ہوئیں ، انہوں نے انگریزی میں ایم اے آنرز کیا، درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں ، عبداللہ گورنمنٹ گرلز کالج برائے خواتین کراچی سے پرنسپل کے عہدے سے ریٹائر ہوئیں ، مشاغل میں شاعری اور مصوری ہے، اب تک ان کے چھ شعری مجموعے ، سرد آگ 1997, خاموش دستک 2002, سیپیاں محبت کی 2006, مکاں لا مکاں 2015, آگہی کی منزل پر 2019, اور اب ” حاصل لا حاصل 2023 قابلِ ذکر ہیں. پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کی ساتویں کتاب اشاعت کے مرحلے میں ہے جس میں مولانا روم کی نظموں کے اْردو ترجمے ہیں. پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کی دو کتابوں پر نمل یونیورسٹی سے مقالہ لکھا گیا ہے ، دو کتابوں ، سرد آگ جو 1997 میں شائع ہوئی انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ کیا گیا اور اس کتاب کو لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا اور شعری مجموعہ” حاصل لا حاصل ” جو 2023 میں شائع ہوا اس کتاب کو بھی لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا. رضیہ سبحان قریشی کو پانچ سے زائد ایوارڈز مل چکے ہیں.

پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کو خاموشی کی ترجمان شاعرہ بھی کہا جاتا ہے ، یہ ایک وقت میں کئی کمال رکھتی ہیں ، گداز جذبوں کی شاعرہ ہیں ، دلکش رنگ بکھیرتی مصورہ ہیں ، الفاظ کو خوبصورت معنی دیتی ہوئی مترجم ہیں ، ہاتھوں کی انگلیوں سے جادو جگانا ان کا خاصہ ہے۔پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کی شاعری جدید اور قدیم لہجوں کا حسین امتزاج ہے، وہ بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں ، ان کا چھٹا شعری مجموعہ ” حاصل لا حاصل ” ان کے افکار و خیالات کا مجموعہ ہے جو زندگی کے سفر میں آپ کو حاصل ہوئے ، اس عمل میں ان کی تخلیقی صلاحیت ، فنی ریاضت ، فکری استقامت. ابھر کر سامنے آئی ہے. یہ ایک سنجیدہ اور حقیقی تخلیق کار ہیں جو تخلیقی کاموں میں ہمہ وقت مصروف رہتی ہیں.

پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کے سماجی و عمرانی شعور کا ایک اہم پہلو ان کی قوت مشاہدہ ہے اور اس مشاہدے سے وہ جو نتیجہ اخذ کرتی ہیں وہ بہت گہرا اور دور رس ہوتا ہے فطرت کے حسن کی عکاسی ان کی نظموں اور غزلوں میں مختلف انداز میں ملتی ہے ، یہ ایسی شاعرہ ہیں جن کو محبوب کی معصومیت اور پانی کی گرتی آبشاروں میں ہی حسن نظر نہیں آتا بلکہ یہ اپنی روزمرہ زندگی میں موجود فطری مظاہر اور تمام مناظر کو موضوع بناتی ہیں. ان کے ہاں موضوعات اور اسلوب دونوں حوالے سے تبدیلی رونما ہوتی ہے جس کی بنا پر جدید شعراءمیں ان کا ایک منفرد مقام ہے.

پروفیسر رضیہ قریشی نے اردو زبان و ادب کے علاوہ انگریزی ادب کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے ، جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی کائنات مزید مؤقر و مؤثر ہو گئی ہے ، ان کی شاعری اور مصوری میں ایسا لگتا ہے جیسے انسان خود ایک ساز ہے، جس کے تاروں کو تصورات کی انگلیاں چھیڑ دیا کرتی ہیں. رضیہ سبحان قریشی شاعری کے ساتھ ساتھ فطرت کی خوبصورتی اور زندگی کی بدصورتی کو قلم سے لفظوں اور رنگوں کے پیکر میں ڈھالتی ہیں، یہ اپنی زندگی کی طرح سے اپنی ادبی اور تخلیقی کائنات میں بھی آئینے کی طرح بالکل صاف و شفاف اور واضح ہیں ان کے ظاہر وباطن کا یہی عکس ان کی شاعری میں دکھائی دیتا ہے.

پروفیسر رضیہ سبحان قریشی نے اپنی شاعری میں الفاظ کی قوس قزح کے رنگ بکھیرے اور سخن کی کہکشائیں تخلیق کیں. ان کا بڑا کام جلال الدین رومی کی نظموں کا منظوم ترجمہ ہے جسے وہ جلد شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔پروفیسر رضیہ سبحان قریشی نے خوبصورت امیج اور لفظیات کے سہارے انسانی ذہنوں میں اترنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے یہ اپنی شاعری میں نئے لفظ اور نئے خیال تراشتی ہیں اور کمال ہنر کے ساتھ اسے فن کے سانچے میں ڈھال دیتی ہیں۔