پچھلے سال اکتوبر سے اس سال اپریل، ستمبر اور اب دسمبر تک یہ چوتھی مرتبہ ہے کہ امریکا نے پاکستانی میزائل پروگرام پر پابندی عائد کی ہے۔ امریکا نے 18 دسمبر 2024 کو جن چار پاکستانی اداروں پر پابندیاں عائد کی ہے ان میں میزائل بنانے والا پاکستان کا سرکاری ادارہ نیشنل ڈیفنس کمپلکس بھی شامل ہے۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکا نے کسی پا کستانی قومی ادارے پر پابندی عائد کی ہے۔ باقی تین کمپنیاں (اختر اینڈ سنز، ایفیلی ایٹس انٹر نیشنل اور روک سائیڈ انٹر پرائزز) اس کی مددگار کمپنیاں ہیں۔ امریکی پریس ریلیز میںالزام عائد کیا گیا ہے کہ پاکستان کا بلیسٹک میزائل پروگرام بڑے تباہ کن ہتھیاروں کی پولی فریشن (غیرقانونی طور پر کسی ملک کو خرید وفروخت کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کا پھیلائو) ہے۔
21 دسمبر کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان پابندیوں کو مسترد کرتے ہوئے انہیں غیر منطقی اور تاریخی تناظر سے عاری قرار دیتے ہوئے پروگرام کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پاکستانی ترجمان کے مطابق یہ پابندیاں اس امر کے باوجود ہیں کہ ’’2012 سے، جب سے امریکا نے یہ موضوع اٹھایا ہے، مختلف پاکستانی حکومتوں، قیادتوں اور عہدیداروں نے بارہا کوشش کی ہے کہ مثبت طریقے سے امریکا کے بے بنیاد خدشات کا ازالہ کر سکیں‘‘۔ یہ پابندیاں اس امر کے باوجود ہیں کہ امریکا پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو خود براہ راست ہر طرح کے ہتھیاروں سے لیس کررہا ہے تاکہ وہ پولیس مین بن کر خطے کے باقی ممالک کے خلاف سرگرم ہو سکے۔ امریکا نے اس کے میزائل پروگرام پر کبھی اس طرح کی پابندیاں عائد نہیں کیں حالانکہ اس کا پروگرام پاکستان سے بہت ایڈوانس ہے۔
امریکی پا بندیوں کی بنیاد بقول امریکی قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر (جوکہ اسرائیلی لابی کے اہم ترین رکن ہیں) کے حالیہ بیان سے لگائی جاسکتی ہے کہ ’’پاکستان کی بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی امریکا کے لیے بڑھتا ہوا ایک خطرہ ہے جوجنوبی ایشیا سے باہر کے اہداف بشمول امریکا کو بھی نشانہ بناسکتا ہے‘‘۔ یہ ایک مضحکہ خیز بیان ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کا ڈھائی ہزار کلو میٹر تک اسٹرائک کرنے والا میزائل، ساڑھے بارہ ہزار کلو میٹر تک دور امریکا پہنچ سکے۔ پاکستان کے شاہین 3 میزائل کی رینج 2750 کلومیٹر ہے جبکہ ابابیل 2200 کلومیٹر کے فاصلے تک متعدد وار ہیڈز یا جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ پاکستانی میزائل امریکا کے لیے نہیں بلکہ اسرائیلی یہودی ریاست کے لیے خطرہ ہیں جو عملی طور پر ایک ریاست نہیں بلکہ امریکا کا فوجی اڈہ ہے جس کے ذریعے وہ مشرق وسطیٰ کو کنٹرول کرتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ امریکا کسی اسلامی ملک کو اتنی ہی طاقت حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے جتنا کہ خطے میں امریکا کے مفاد کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہو۔ اب اس وقت یہ امریکی مفاد میں نہیں ہے کہ پاکستان زیادہ رینج کے میزائل یا ہائپر سونک میزائل بنائے۔ جب کہ بھارت کے اگنی 5 بین البراعظمی میزائل کی رینج 5000 کلومیٹر ہے جو پاکستان کے علاوہ چین کے شہروں کو بھی نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ نا صرف امریکا کو منظور ہے بلکہ عین اس پروگرام کے مطابق ہے جو وہ بھارت کو خطے کے چوکیدار کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اپنے میزائل پروگرام کے لیے کھلے عام دنیا سے سامان خرید رہا ہے لیکن امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ بھارت تو پاکستان کے لیے خطرہ ہو لیکن کسی بھی طور، کسی بھی حوالے سے پاکستان بھارت کے لیے خطرہ بننے کی استعداد حاصل نہ کرسکے۔ بھارت کو پاکستان کی طرف سے کامل یقین ہو کہ پاکستان کے دانت نکال دیے گئے ہیں تاکہ وہ مکمل یکسوئی کے ساتھ چین سے محاذ آرائی کرسکے۔
امریکا میں موجود بھارتی اور یہودی لابی مسلسل یہ پروپیگنڈہ کرتی رہتی ہے کہ پاکستان مستقبل میں اپنا اسپیس وہیکل لانچ کرسکتا ہے جس سے پاکستان کو بین البراعظمی میزائل بنانے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی۔ جان فائنر کا بیان اسی تناظر میں ہے۔ حالانکہ پاکستان کا دفاعی پروگرام اب تک مکمل طور پر بھارت کوجواب اور ردعمل میں ہے۔ امریکا نے بھارت کو جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی منتقل کی ہے۔ وجہ یہ کہ وہ چین کے مقابل کھڑا ہوسکے۔ کیسے بھروسا کیا جاسکتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ اس صورتحال میں پاکستان غافل ہوکر بیٹھا رہے اور بھارت کو جواب دینے کی تیاری نہ کرے۔
امریکا جس طرح عالم اسلام کو برباد کررہا ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور نہ جانے کس کس اسلامی ملک کو کس کس طرح برباد کرچکا ہے اس کے بعد اس میں کوئی کلام نہیں کہ امریکا تمام اسلامی ممالک کا کھلا دشمن ہے۔ کسی نہ کسی وقت اس کا اگلا نشانہ پاکستان ہو، یہ قرین قیاس نہیں بلکہ عین ممکن ہے۔ امریکا افغانستان کو برباد کرچکا، عراق کو برباد کرچکا، مشرق وسطیٰ کو برباد کررہا ہے تو کیسے ممکن ہے وہ پاکستان کو چھوڑ دے گا اور پاکستان کو برباد نہیں کرے گا۔ امریکا پاکستان کا بھی اتنا ہی دشمن ہے جتنا وہ افغانستان کا تھا جتنا وہ عراق کا تھا۔ امریکا فی الوقت آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے پاکستان کو معاشی اور اقتصادی گرفت میں لے رہا ہے تاکہ پاکستان خود مختار معاشی طاقت نہ بن سکے۔ وہ اگر ’’معاشی استعماریت‘‘ ہے تو میزائل پروگرام پر پابندیاںیہ ’’فوجی استعماریت‘‘ ہے۔ یہ فوجی استعماریت تمام اسلامی ممالک کے لیے ہے تاکہ کوئی بھی اسلامی ملک امریکا کے لیے تو درکنار اس کے اتحادیوں جیسا کہ اسرائیل، بھارت، تائیوان اور دیگر ممالک کے لیے بھی خطرہ نہ بن سکے۔ امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے دفاع میں خود مختار نہ ہو اور صرف وہاں تک محدود رہے جہاں تک امریکا اجازت دیتا ہے۔ امریکا کا ہدف مکمل طور پر پاکستان کی تباہی ہے۔
اسلامی ممالک میں امریکا کے لیے باعث اطمینان اسلامی ممالک کے حکمران ہیں جو کم وبیش سب ہی امریکا اور سرمایہ دارانہ نظام کے ایجنٹ اور غلام ہیں۔ ان ممالک میں امریکا کی پریشانی اسلام ہے کہ اگر کسی اسلامی ملک میں اسلامی حکومت اور اسلامی انقلاب آگیا، وہاں شریعت نافذ ہوگی اور اسلام کے تحت حکمرانی کرنے والے مخلص لوگ برسراقتدار آگئے تو یہ تمام ایٹمی اسلحہ اور فوجی سازو سامان ان کی تحویل میں نہ چلا جائے۔ شام میں بھی امریکا کو اسی صورتحال کا سامنا تھا۔ جب تک بشارالاسد کی حکومت تھی وہاں شام کی فوجی طاقت محفوظ تھی لیکن جیسے ہی بشار حکومت گری اور مختلف جہادی گروپ دمشق کی طرف بڑھے اور وہاں قبضہ کرلیا امریکا کی پریشانی شروع ہوگئی۔ اگرچہ جولانی کی صورت میں امریکا کو یہ اطمینان تھا کہ معاملات اس کے کنٹرول میں رہیں گے لیکن جو دیگر جہادی گروپ ہیں اگر معاملات ان کے کنٹرول میں چلے گئے تووہ کہیں اسرائیل کا رخ نہ کرلیں اور اسرائیل کے خلاف جنگ شروع نہ کردیں۔ یہ امریکا کوکسی حال میں قبول نہیں تھا۔ اس لیے جیسے ہی بشار کی حکومت گری امریکا نے اسرائیلی حملوں کے ذریعے شام کی تمام فوجی تنصیبات، انفرا اسٹرکچر اور صلاحیتوں کو برباد کردیا۔ یہ خطرہ امریکا کو ہر اسلامی ملک سے ہے خواہ وہ امریکا کا کتنا ہی بڑا دوست ہو جیسے کہ مصر، ترکی، پاکستان، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک۔