من موہن سنگھ،گاہ سے واہ واہ تک

326

برصغیر کی سیاست ومعیشت میں ایک بھرپور اننگز کھیلنے والے بھارت کے سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ بانوے برس کی عمر میں دنیا سے چل بسے۔ جہلم کے دوردراز گائوں گاہ میں ایک غریب سکھ گھرانے میں پیدا ہونے والا موہنا جدید بھارت کی معیشت کا سب سے بڑا معمار بن کر سامنے آئے گا شاید کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا مگر انقلاب اسی کا نام ہوتا ہے۔ من موہن سنگھ کی خدمات بھارت کے لیے تو ہیں مگر انہوں نے برصغیر میں مخاصمت کا ماحول ختم کرنے کے لیے اپنی سی کوششیں کیں مگر ان کی یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکیں۔ بھارت کی طاقتور حکمران اشرافیہ کو شاید انداز تھا کہ پاکستان رفتہ رفتہ اس معاشی تنزل کی طرف جائے گا جس کے اثرات اس کی سیاست پر بھی مرتب ہوں گے اور ایسے میں بھارت کو پاکستان کے ساتھ کوئی قابل عمل اور برابری کا سمجھوتا کرنے کی ضرورت نہیں جب من موہن سنگھ وزیر اعظم بھارت تھے تو اسی دور میں امریکا عالمی مالیاتی اداروں، اقوام متحدہ، فیٹف اور طاقتور مغربی میڈیا سمیت ہر ہتھیار سے پاکستان کے نٹ بولٹ کسنے کی تیاریاں کر رہا تھا یہ سب کچھ دہشت گردی برآمدکرنے والے ملک کا لیبل لگا کر کیا جا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ بھارت امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر بن چکا تھا تو وہ بہت سے منصوبوں سے باخبر تھا اور من موہن سنگھ کا ہی دور تھا جب امریکا نے بھارت کے ساتھ ایٹمی توانائی کا معاہدہ کرکے اپنے ایٹمی پروگرام کو مستقبل کے لیے ایک سند جوازیت عطا کردی پاکستان مطالبات اور خواہشات کے اظہار کے باوجود امریکا سے ایسا معاہدہ اور ایسی سند حاصل نہ کر سکا جس میں اہل عقل کے بہت سی نشانیاں تھیں۔

منموہن سنگھ کی موت پر بھارت میں سات روزہ سوگ منایا جارہا ہے۔ نریندر مودی سے سونیا گاندھی کے دو متحارب سیاسی کیمپوں تک کے لوگ ان کے تابوت کے آگے سرجھکائے کھڑے ہیں۔ پورا بھارت بلا تخصیص مذہب ونظریہ ان کی خدمات کا اعتراف کر رہا ہے۔ منموہن سنگھ کی زندگی اور موت میں قدرنا شناسوں کے لیے ایک سبق ہے اور یہی ہمارا موضوع ہے۔ من موہن سنگھ ایک معیشت داں کے طور 1991 میں نرسہما رائو کے دور میں بھارت کے وزیر خزانہ بنے۔ وہ ایک کمزور پس منظر کے حامل اور دبی ہوئی اقلیت یعنی سکھ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ اس وقت آپریشن بلو اسٹار کی ذہنیت بھارت میں زیادہ پرانی ہوئی تھی نہ وہ زخم پوری طرح مندمل ہوئے تھے۔ بھارت کا سرپرست اور بین الاقوامی منظر کا سب سے قریبی اتحادی سوویت یونین ٹوٹ چکا تھا اور یوں بھارت میں بے سائبان ہوجانے کا احساس بھی نمایاں تھا اور وہ کیفیت بھی پوری طرح موجود تھی۔ مغرب بہت حسرت اور حیرت کے ساتھ ایک ارب آبادی کی حامل انسانی منڈی کو دیکھ رہا تھا مگر بھارت سوویت دور کی بند معیشت کی پالیسی کا خوگر تھا اور وہ مغرب کی کمپنیوں کی اپنی منڈیوں تک رسائی سے خوف محسوس کر رہا تھا۔ یہاں من موہن سنگھ نے بہت مہارت کے ساتھ بھارت کی اصل حکمران اشرافیہ کو باورکرایا کہ سوویت دور کی معاشی پالیسی کو سینے سے لگائے رکھنے سے وہ سوویت یونین کی طرح قصہ ٔ پارینہ بن سکتا ہے۔ اس وقت بھارت کی معیشت پر ایک رعشہ طاری تھا اور مغربی ممالک اس کی کلائی مروڑنے کے لیے کئی انداز اختیارکررہے تھے بھارت کی حکمران اشرافیہ نے امریکا کی ترغیب پر آخر کار اپنی پالیسی میں تبدیلی کی اور معیشت کو زوال کی جانب لڑھکنے سے بچالیا اور اس عمل میں منموہن سنگھ کی حکمت عملی کا گہرا دخل تھا برسوں بعد جب سونیا گاندھی وزارت عظمیٰ کی کرسی سے چند قدم کی دوری پر تھی تو مخالفین نے ان کے اطالوی پس منظر کا سوال اُٹھا دیا تو سونیا گاندھی نے منموہن سنگھ کی پرانی خدمات کے بدلے انہیں بھارت کا وزیر اعظم نامزد کیا اور یوں وہ مسلسل دوبار بھارت کے وزیر اعظم رہے۔ ایک کمزور سماجی پس منظر کی حامل شخصیت کو معیشت کے شعبے میں خدمات کے عوض اس انعام واکرام کا مستحق جانا گیا۔ کچھ ایسی ہی کہانی بھارت کے مسلمان صدر عبدالکلام کی تھی کہ جنہیں کمزور پس منظر کے باوجود میزائل سازی اور ایٹمی شعبے کے لیے خدمات کے عوض اور انعام کے طور صدر بنا یا گیا تھا۔

منموہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے واجپائی کی امن کوششوں کو اونر شپ دی اور اس پیس پروسیس کو آگے بڑھانے کی راہ اختیار کی۔ اس پیس پروسیس کے بینیفشری بہت سے ہوں گے لیکن ایک صحافی کے طور میں بھی خود کو اس بدلے ہوئے منظر کا بینیفشری سمجھتا ہوں۔ دوہزار کی دہائی تک مغرب کی سمت کئی ممالک کو دیکھ چکا تھا مگر مشرق کی دنیا لاتعداد لوگوں کے لیے ایک اور ہی سیارہ تھا جس کے بارے میں جو کچھ معلوم تھا فقط مورخین اور مصنفین کی حاشیہ آرائی تھی۔ حقیقت میں عالمی سرحد اور کنٹرول لائن کے دوسری جانب کون سی دنیا ہے کچھ پتا نہیں تھا۔ یہ پاک بھارت امن عمل تھا جو گوکہ برگ وبار لائے بغیر ہی مرجھا گیا مگر بہت سوں کو بہت کچھ سمجھا گیا۔ اسی عمل کے دوران میں نے پہلی بار واہگہ کی سرحد کے پار قدم رکھا اور پھر ریل گاڑی میں ہر اسٹیشن پر ایک بورڈ نظر آتا تو نصاب میں پڑھا ہوا کوئی نام ذہن میں آتا۔ جالندھر سے حفیظ جالندھری ہوشیار پور سے طفیل ہوشیار پوری، پانی پت سے جمال پانی پتی اور تاریخی لڑائیاں، انبالہ سے وقار انبالوی یہاں تک دہلی کے بورڈ سے مسلم برصغیر کی پوری تاریخ اور دیوان غالب ذہن میں گھومنے لگے دہلی میں قطب مینار جامع مسجد درگاہ نظام دین، غالب اکیڈمی اور آگرہ میں تاج محل کا حسن بے مثال مبہوت کرنے کو کیا کم تھا کہ متھرا میں لارڈ کرشنا کے پرشکوہ مندر کے پہلو میں ویران اور نوحہ کناں متھرا کی تاریخی مسجد کے تالہ بند دروازے اور گھاس پھونس سے اٹے سفید گنبد ملول کرنے کو کافی تھے۔ یہ مسجد اب اپنی باری کی منتظر فقط تاریخ کا ایک دھندلا سا نقش ہی تھی کیونکہ اس وقت بھی بابری مسجد کے بعد یہ دوسرا نشانہ تھی۔ غرض یہ کہ مسلم برصغیر کی تاریخ کے تالاب کی غوطہ زن تھی۔ کچھ ہی عرصہ بعد اسی پیس پروسیس کے نتیجے میں کشمیر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک ایسی گم گشتہ سرزمین جس میں میرا ماضی دفن اور حال ومستقبل زندہ ہے۔ بزرگوں کی قبروں کی صورت میں ماضی اور اپنے درجنوں فرسٹ کزنز کے بچوں کی صورت مستقبل۔ پیس پروسیس کی اس ٹمٹماتی ہوئی شمع سے بے شمار لوگوں اپنی تاریخ کی بازیافت کے اس تجربے سے آشنا ہوئے تو اس میں منموہن سنگھ کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ ہے۔ منموہن سنگھ کو بھارت کی معیشت کے نئے خد وخال تراشنے کی خدمات پر دوبار وزیر اعظم بنایا گیا عبدالکلام کو بھارت کے دفاع کو مضبوط بنانے پر صدر بنایا گیا اور دونوں کو بعد ازمرگ اعزاز سے ترنگے میں لپیٹ کر الوداع کہا گیا تو پاکستان میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے محسنوں کے ساتھ ہونے والا سلوک یاد آگیا اور ان کا یہ کہتے ہوئے کف افسوس ملنا بھی کہ یہاں ملک سے جو جس قدر بڑی غدار ی کرے گا وہ اتنا ہی انعام پائے گا اور ملک کی خدمت کرنے والا اتنی ہی بڑی سزا۔ آج کے پاکستان کو دیکھیں تو ڈاکٹر صاحب کا یہ تاسف ایک حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ محسنوں کی قدر اور ناقدری کا فرق اور اس کا نتیجہ بھی مختلف ہوتا ہے یہ بھی آج ہم تاریخ میں پڑھ نہیں رہے بلکہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔