نمازوں اور دُعاؤں کی بے اثری

428

مسلمانوں کی تاریخ میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا جب انہیں محسوس ہوا کہ کوئی اور چیز تو کیا ان کی عبادت اور دُعا بھی قبول نہیں ہو رہی، یہ خیال اور یہ احساس اذیت ناک تھا اور اس اذیت نے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کیا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ چناں چہ اس سوچ بچار کے نتیجے میں ایسی تحریریں وجود میں آئیں جن میں اس امر کا تجزیہ کیا گیا تھا کہ ہماری نمازیں کیوں بے اثر ہوگئی ہیں اور ہماری دُعائیں نتائج کیوں پیدا نہیں کر رہیں؟ ان سوالات کے جوابات سامنے آئے ہیں ان سے اکثر لوگ واقف ہیں، ان جوابات کی تفصیلات بہت زیادہ ہیں لیکن ان کا لب لباب یہ ہے کہ مسلمان اسلام سے دور ہو گئے ہیں، ان کی انفرادی اور اجتماعی شخصیت میں تضادات پیدا ہو گئے ہیں۔ ان کا ایک عمل مسلمان کا عمل ہے اور دوسر اعمل منافق کا عمل ہے۔ ایک جانب وہ نماز روزے کو عزیز رکھتے ہیں اور دوسری جانب ان کی بداعمالیاں بھی جاری رہتی ہیں، اور یہی صورتِ حال ان کی نمازوں اور دُعاؤں کی بے اثری کا سبب ہے۔ یہ جواب درست ہے اور اس کی اپنی اہمیت اور معنویت ہے لیکن مذکورہ سوالات کا ایک اور پس منظر بھی ہے۔

یہ ٹھیک ہے کہ مسلمانوں میں اپنی نمازوں اور دُعاؤں کے حوالے سے شک پیدا ہوا لیکن اس شک کی ابتدا سیاسی شک Political doubt سے ہوئی۔ سقوط بغداد نے مسلمانوں کی سیاسی وحدت، سیاسی اتحاد اور سیاسی مرکزیت کو تہ و بالا کر دیا۔ ملت اسلامیہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ مسلم دُنیا میں نو آبادیاتی دور کی ابتدا نے مسلمانوں کی خود اعتمادی کو مزید مجروح کیا اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ ترکی میں خلافت عثمانیہ کا سورج بھی غروب ہو گیا اور اس مرکز کی جو علامتی اہمیت تھی مسلمان اس سے بھی محروم ہو گئے۔

اے خاصۂ خاصانِ رسل وقتِ دُعا ہے
اُمت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
مسلمانو! نہ گھبراؤ خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے ابھی قرآن باقی ہے

یہ آوازیں، یہ صدائیں مسلمانوں کی مذکورہ محرومی کا شدید اظہار ہیں اور ان سے صاف ظاہرہے کہ مسلمان خدا قرآن اور سول خدا کے سوا کسی سہارے کی موجودگی کو محسوس نہیں کر رہے تھے۔

علامہ اقبال کا شکوہ اگرچہ مذہبی تناظر اور مواد (content) رکھتا ہے، لیکن یہ شکوہ بھی سیاسی تجربات سے پیدا ہونے والے شک ہی کی پیداوار ہے اور یہ شک ایک مرحلے پر اتنا بڑھ گیا کہ مسلمانوں کو محسوس ہونے لگا کہ اب ان کی نماز میں اور دُعائیں بھی بے اثر اور بے نتیجہ ہوگئی ہیں ان حقائق سے کئی اور اہم حقائق سامنے آتے ہیں جن میں سے اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ انسان اور خاص طور پر مسلمانوں کی تہذیب اور ان کے نظام فکر میں سیاسی مرکز کی کیا اہمیت رہی ہے اور اس مرکز کی کمزوری اور خاتمے سے مسلمانوں پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں بے شک یہ حقیقت اتنی سیدھی سادی نہیں ہے جتنی کہ بیان میں ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن بہر حال اس حقیقت سے انکار محال ہے اور جو لوگ اسلام اور ریاست کے باہمی تعلق کو نظر انداز کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں انہیں اپنے نقطہ نظر پر ایک بار پھر غور کر لینا چاہیے مگر بات شروع ہوئی تھی نمازوں اور دُعاؤں کی بے اثری سے۔

اس امر سے انکار کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے کہ نفاق اور تضادات نماز اور دُعا کو بے اثر بنا دیتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ نکتہ ایک مزید گہرے مسئلے سے متعلق۔ عبادت اور دعا دراصل اللہ تعالیٰ سے تعلق کا اعلان ہیں اور تعلق کی روح یقین ہے اور اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی دُعا سُنی جائے گی اور اس کی عبادت قبول کی جائے گی تو پھر ان کی بے اثری کوئی راز نہیں رہتی۔ بظاہر دیکھا جائے تو اس حقیقت کا اعتراف کوئی بھی نہیں کرے گا کہ وہ یقین سے محرومی کی حالت میں نماز ادا کرتا ہے اور دعا مانتا ہے لیکن دراصل ہوتا یہی ہے۔ یہ بات کہ نماز اس طرح ادا کرو گویا تم خدا کو دیکھ رہے ہو یا کم از کم خدا تمہیں دیکھ رہا ہے، اس بلیغ اشارے سے عبارت ہے کہ خدا کوئی لفظ، کوئی خیال یا کوئی تصور نہیں بلکہ وہ سب سے بڑی حقیقت ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ اسے اسی طرح محسوس کیا جائے جس طرح سے اسے محسوس کرنے کا حق ہے۔ کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ جن کے لیے خدا، رسالت، آخرت، جنت و دوزخ ’’حال‘‘ ہوتے ہیں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ’’حالی‘‘ کیا ’’قالی‘‘ بھی نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ’’قال‘‘ کا بھی ایک ’’حال‘‘ ہوتا ہے اور ہمارے پاس قال تو ہے مگر قال کا حال نہیں ہے۔ یہ مسائل تو خیر اپنی جگہ ہیں ہی، لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یقین سے محرومی کا المیہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب بندہ خود اپنے کو ربّ کی توجہ اور اس کی رحمتوں کا مستحق سمجھنا چھوڑ دیتا ہے، نفاق اور تضادات ایک درجے اور ایک دائرے میں بجائے خود بھی قابل مذمت ہیں لیکن ان کی اصل ہولنا کی یہ ہے کہ وہ بندے کے اس یقین کو کھا جاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور اس کی رحمتوں کا حقدار ہے۔ بات یہ ہے کہ زندگی میں ہر چیز کا ایک ’’میرٹ‘‘ ہے اور انسان میں خلقی طور پر اس میرٹ کا احساس موجود ہے اور انسان جب میرٹ کے احساس کو پھلانگ اور کچل کر کچھ حاصل کرتا ہے تو اس میں ایک احساس جرم پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ کچھ لوگوں کو اس کا شعور ہوتا ہے اور کچھ کو نہیں، یہ احساس سب سے پہلے انسان کے یقین پر چھاپا مارتا ہے اور اسے تہ و بالا کرتا ہے۔ دراصل انسان میں جب نفاق اور تضادات جڑ پکڑ لیتے ہیں تو وہ خدا اور اپنے تعلق کی میرٹ کو مجروح کرتے ہیں، اور یہ احساس خواہ شعوری ہو یا نہ ہو بہر حال اپنا کام کرتا رہتا ہے اور پھر ایک وقت وہ آتا ہے کہ انسان نماز پڑھتا ہے مگر بے یقینی کے ساتھ ، دعا مانگتا ہے اور یقین سے محرومی کے ساتھ۔ مولانا ایوب دہلوی نے ایک جگہ بہت اچھی بات لکھی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ قادر مطلق ہے اور وہ القادر ہے اس لیے وہ ’’عاجز‘‘ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے ’’عجز‘‘ بہت پسند ہے۔ چنانچہ اس کی حمد و ثناء کرو تو عجز کے ساتھ کرو۔ اس سے کچھ مانگو تو عجز کے ساتھ مانگو۔ بلاشبہ عجز کا مسئلہ کسی خاص طور سے متعلق نہیں۔ لیکن بہر حال فی زمانہ عجز کا پیدا ہونا امر محال ہو گیا ہے۔ اس کی وجوہ ما بعد الطبیعیاتی بھی ہیں، اخلاقی بھی، نفسیاتی بھی اور سیاسی وسماجی بھی لیکن سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ آج کل کے انسان کو تاویل اور جواز جوئی کی جیسی لت لگی ہے اس کی نظیر کسی بھی دور میں تلاش نہیں کی جاسکتی۔ انسان ان دونوں رجحانات کے زیر اثر بڑی بڑی باتوں کو کیا زندگی کے کوموں اور فل اسٹاپس کو بھی ’’منقلب‘‘ کر کے کچھ سے کچھ بنا لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اعتراف ہی نہیں ہوگا تو عجز کہاں سے آئے گا۔

ایک مجلس میں ہم نے مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کے خاتمے اور اس کے اثرات کا ذِکر کیا۔ ایک صاحب نے جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے بہت اچھا سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ پچاس ساٹھ سال میں مسلمانوں کی سیاسی زندگی میں بہت بڑا تغیر آچکا ہے تو کیا سیاسی مرکزیت کے خاتمے کے اثرات اب تک موجود ہیں؟ ہم نے کہا کہ آپ کے سوال کا جواب اتفاق سے ایک لطیفے میں مضمر ہے، لطیفہ یہ ہے کہ ایک صاحب سے نجومی نے کہا کہ آپ کی زندگی کے دس سال غربت میں گزریں گے۔ سائل نے پوچھا اور اس کے بعد؟ نجومی نے کہا کہ اس کے بعد آپ کو غربت کی عادت ہو جائے گی۔ مسلمانوں کا مسئلہ بھی یہی ہے۔ انہیں ایک کیا بہت سے چیزوں کی عادت ہو گئی ہے اور عادت اتنی ہولناک چیز ہے کہ انسان کچھ اور تو کیا سگریٹ بھی نہیں چھوڑ پاتا۔ البتہ نمازوں اور دعاؤں کی بے اثری پر کالم ضرور لکھ دیتا ہے۔