ہوسِ اقتدار انسانی اقدار کو ماند کر دیتی ہے جو بالآخر زوال پر منتج ہوتا ہے یہ حقیقت انسانی تاریخ کے کئی تلخ ابواب میں عیاں ہے کہ جب اقتدار اور طاقت کا حصول انسان کا واحد مقصد بن جاتا ہے تو اخلاق، اصول، انصاف اور انسانیت جیسے بنیادی اقدار پس پشت ڈھل جاتے ہیں اقتدار کی طلب اور ارمان اکثر ظلم، ناانصافی اور خود غرضی کے راستے پر لے جاتے ہیں جس سے نہ صرف حکمران خود گمراہی کے شکار ہوتے ہیں بلکہ ان کے فیصلے پورے معاشرے کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچا دیتے ہیں اقتدار کی ہوس صرف ریاستی یا عالمی سطح پر ہی نہیں بلکہ سماجی ڈھانچے میں بھی انسانی اقدار کے زوال کا سبب بنتی ہے سیاستدان، صنعت کار حتیٰ کی تنظیمی سربراہان بھی اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے اصولوں اور اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر کمزور اور تابعین کو قرنانی کا بکرا بنا دیتے ہیں جس کا نتیجہ معاشرتی ناہمواری، بدعنوانی اور عدل و انصاف کے نظام کی کمزوری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
آج شام کے حکمران بشار الاسد کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے جس نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے اور طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں شام کے قید خانے، خاص طور پر بدنامِ زمانہ جیل ’’صیدیانا‘‘ ان مظالم کی گواہی پیش کرتے ہیں اس جیل کی خوفناک سیلز، اندھیرے کوریڈورز، اور دل دہلانے والے تنگ و تاریک تعزیب خانے دیکھ کر انسانی روح تڑپتی اور کلیجہ منہ کو آتا ہے ہوس اقتدار کی اندھیر نگری میں ان قید خانوں کو نہ صرف جسمانی تشدد کا مرکز بنایا گیا بلکہ مسند اقتدار پر قابض رہنے کے لیے بنی نوع انسان کو ذہنی اذیت دینے کے ایسے طریقے اپنائے گئے ہیں جو انسانیت کی تذلیل کی بدترین شکل ہیں۔
ہوسِ اقتدار انسان کو اس حقیقت سے غافل کر دیتے ہیں کہ طاقت ہمیشہ کے لیے نہیں رہتی جو حکمران ظلم کے ذریعے اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تاریخ میں بدنما داغ بن کر ہی رہ جاتے ہیں ان کے ظلم کی داستانیں نسل در نسل سنائی جاتی ہیں مگر ان کے ساتھ رحم، محبت، اور انصاف کی کوئی یاد باقی نہیں رہتی۔ غور طلب ہے کہ اگر یہی خطیر رقم جو ان تعزیب خانوں کی تعمیر اور ظالمانہ اور غاصبانہ نظام کو برقرار رکھنے پر خرچ کی گئی عوام کی فلاح و بہبود پر صرف کی جاتی تو عوام اپنے حکمران کو جابر نہیں مسیحا کے طور پر یاد رکھتے عوامی وسائل کو تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل کے لیے خرچ کرنا اقتدار کی ہوس کا واضح ثبوت ہے تاریخ گواہ ہے کہ وہ حکمران جو عوام کی خدمت اور انصاف کو اپنا شعار بناتے ہیں وہ دلوں پر راج کرتے ہیں لیکن جو ظلم اور جبر کا راستہ اختیار کرتے ہیں ان کے اقتدار کے محلات ایک دن ریت کے ذروں کی طرح بکھر جاتے ہیں شام کا حالیہ المیہ اس بات کی ایک تازہ اور زندہ مثال ہے وقت کی پکار ہے کہ حکمران اپنی طاقت اور صلاحیتوں کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کریں عوام کو بنیادی سہولتیں، انصاف، اور آزادی فراہم کرنا ہی کامیاب حکمرانی کا راز ہے ہوسِ اقتدار کو ترک کرکے انسانی اقدار کو اپنانا ہی وہ راستہ ہے جو کسی بھی معاشرے کو امن، خوشحالی اور ترقی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
مملکت شام میں ظالمانہ حاکمیت کا خاتمہ کئی طوفانوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے بٹر فلائی ایفیکٹ تھیوری کے مطابق بعض اوقات دنیا میں پیش آنے والے معمولی یا غیر معمولی واقعات بڑے پیمانے پر اثرات مرتب کرتے ہیں اس نظریہ کی روشنی میں بھارت میں جاری حالات اور حکمرانوں کے منصوبے مستقبل کے طوفانوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں ہوسِ اقتدار میں بھارتی حکمران نریندر مودی بھی بشار الاسد جیسے آمرانہ طرزِ حکومت کو اپناتے ہوئے ہندوتوا ایجنڈے کے تحت اپنی حکمرانی قائم رکھنے کی کوشش میں مست ہے یہ حکمت عملی بھارت میں موجود اقلیتوں کو دبانے اور ان کے حقوق سلب کرنے پر مبنی ہے جو نہ صرف اندرونی انتشار کو بڑھانے کا سبب بن چکے ہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت کی جمہوری ساکھ پر سوالات کھڑے کر چکے ہیں ریاست جموں کشمیر کی عوام کے حقوق پر ڈھاکا اور ان پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم، اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی جارحیت اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان سماجی اور معاشرتی بحران کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے یہ صورتحال ایک ایسے طوفان کی نشاندہی کرتی ہے جو نہ صرف ہندوستان بلکہ ایشائی خطے کے امن و امان کو اپنی لپیٹ میں لے کر انسانی اقدار کے زوال پر ہی اختتام پذیر ہوسکتا ہے۔