دھرنے، حکومتی بے حسی اور عوامی مشکلات

368

پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز کراچی، گزشتہ کئی دنوں سے اذیت اور تکلیف میں ہے۔ مذہبی جماعت وحدت المسلمین کے جاری احتجاج نے شہر کے معمولاتِ زندگی کو مفلوج کردیا ہے۔ مختلف مقامات پر دھرنوں جن میں چالیس، پچاس سو افراد کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہے، جس کا خمیازہ عام شہریوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ گلستانِ جوہر، شارع فیصل، نیشنل ہائی وے، ایم اے جناح روڈ سمیت شہر کے 13 اہم مقامات پر جاری دھرنے نہ صرف روزمرہ زندگی کے لیے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں بلکہ مریضوں، طلبہ، ملازمین اور کاروباری افراد کے لیے ناقابل ِ برداشت مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ ڈی آئی جی کراچی ٹریفک پولیس احمد نواز چیمہ نے دعویٰ کیا ہے کہ شہریوں کو متبادل راستے فراہم کیے گئے ہیں اور دن رات شفٹوں میں ٹریفک اہلکار تعینات کیے گئے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ شہری بدستور مشکلات کا شکار ہیں۔ پاراچنار واقعے کے خلاف احتجاج ایک جمہوری حق ہے، لیکن اس کے اثرات عوامی زندگی پر نہایت سنگین پڑرہے ہیں۔ کراچی جیسے بڑے شہر میں جہاں روزانہ لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں، سڑکوں کی بندش کے باعث عوام کو نہ صرف وقت کے ضیاع بلکہ نفسیاتی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دفاتر پہنچنے میں تاخیر، ایمبولینسوں کا راستہ بند ہونا اور طلبہ کی تعلیم میں خلل جیسے مسائل نے کراچی کے لوگوں کی زندگی کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ اس موقع پر کراچی ٹریفک پولیس نے صورتِ حال کو قابو میں رکھنے کے لیے متبادل راستے فراہم کیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ عارضی اقدامات کافی ہیں؟ کیا طویل المدتی منصوبہ بندی کے بغیر کراچی کے شہری بار بار ان مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے؟

مجلس وحدت المسلمین کے مرکزی رہنما علامہ حسن ظفر نقوی نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران واضح کیا کہ پاراچنار میں جاری صورتِ حال کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے، جو کہ حقیقت سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاراچنار میں 90 دن سے راستے بند ہونے کی وجہ سے ضروری اشیاء اور ادویہ کی شدید قلت ہے۔ یہ مسئلہ براہِ راست حکومت کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے جو کہ نہ صرف مقامی بلکہ وفاقی سطح پر بھی اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت ِ سندھ جو کراچی کے لوگوں کے لیے تکلیف کا استعارہ ہے، اس کی دوغلی پالیسی بھی قابل ِ مذمت ہے۔ یہاں اساتذہ اور معذور افراد اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وفاق سمیت پوری عسکری طاقت ایک سیاسی جماعت کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ ان کے کسی احتجاج کو ماننے سے قاصر ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاراچنار کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے اور تمام فریقین کے ساتھ مذاکرات کرے، تاکہ راستے کھولے جاسکیں اور عوام کو ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ ہمارے سیکورٹی اداروں کو بھی ملکی سیاست سے ہٹ کر سیکورٹی کے کاموں پر توجہ دینی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ادارے اس حوالے سے ناکام ہوئے ہیں، اگر وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کررہے ہوتے تو پاراچنار جیسے واقعات رونما ہی نہ ہوتے۔ اِس وقت شہر کراچی کے لوگوں میں غصہ بڑھ رہا ہے، ملک دشمن عناصر اس صورتِ حال کا غلط فائدہ اٹھا سکتے ہیں، جس کا اظہار علامہ حسن ظفر نے بھی کیا ہے۔ اب یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ وہ دہشت گردی کو ملک سے ختم کرے، اور لوگوں کو تکلیف سے نکالے۔ کیوں کہ قوم اپنا پیٹ کاٹ کر ایک بڑا بجٹ سیکورٹی کے نام پر دے رہی ہے۔ اسی لیے جہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاراچنار واقعے میں متعلقہ لوگوں کو انصاف فراہم کیا جائے، وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ کراچی جیسے میگا شہر کو متاثر نہ کیا جائے۔ اس کے اثرات صرف کراچی پر نہیں بلکہ پورا ملک محسوس کرتا ہے۔ شہری انتظامیہ، ٹریفک پولیس، اور مظاہرین کو مل کر ایسا طریقہ کار اپنانا ہوگا جس سے نہ صرف عوامی مسائل حل ہوں بلکہ احتجاج کا مقصد بھی حاصل ہو۔ کراچی کے مسائل کا حل وقتی انتظامات سے نہیں بلکہ طویل المدتی پالیسیوں سے ممکن ہے۔ کراچی کے عوام کو بار بار ان مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے، لیکن کیا ان کی زندگی کبھی آسان ہوگی؟ یہ سوال اْس وقت تک جواب طلب رہے گا جب تک حکومت کوئی دیرپا حل تلاش نہیں کرتی۔ احتجاج اور شہری زندگی کے درمیان توازن قائم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔