دوسری مدت کے لیے امریکا کے صدر منتخب ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے کیمپ میں تارکینِ وطن سے متعلق پالیسی کے حوالے سے شدید نوعیت کے اختلافات نے جنم لیا ہے۔ اس حوالے سے تھوڑے بہت اختلافات موجود مگر اِنہیں بڑھاوا اُس وقت ملا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے مصنوعی ذہانت سے متعلق امور کے لیے اٹلی میں پیدا ہونے والے تارکِ وطن آجر سری رام کرشنن کو اپنا مشیر منتخب کیا۔
ارب پتی تاجر ایلون مسک بھی اب تارکینِ وطن سے متعلق ٹرمپ کی پالیسی کے خلاف جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے ’میک امریکا گریٹ اگین‘‘ (میگا) کا نعرہ لگایا ہے یعنی امریکا کو دوبارہ عظیم بناؤ۔ اس نعرے کے تحت وہ تارکینِ وطن کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ ایلون مسک اب اس حوالے سے اختلافِ رائے کا اظہار کرنے لگے ہیں۔
ایلون مسک اور وویک راما سوامی کو ٹرمپ نے حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے سے متعلق محکمے کی سربراہی سونپی ہے۔ اب یہ دونوں تارکینِ وطن کے خلاف پائی جانے والی سوچ کے سب سے بڑے وکیل سمجھے جانے والے میٹ گیٹز اور لارا لومر کے مقابل کھڑے ہوگئے ہیں۔
لارا لومر نے سلیکون ویلی کے وینچر کیپٹلسٹ سری رام کرشنن کے مشیر کی حیثیت سے انتخاب پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ تارکینِ وطن کو امریکا کے لیے بوجھ قرار دیتے ہیں مگر اُن کے اپنے مشیروں میں کئی تارکینِ وطن شامل ہیں۔
امریکی اور یورپی میڈیا ایلون مسک بمقابلہ میگا کی سُرخی کے ساتھ ٹرمپ کیمپ کی اس اندرونی لڑائی کو نمک مرچ لگاکر بیان کر رہے ہیں۔ امریکا میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف نفرت ابھر کر ٹرمپ نے بھرپور کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی صورت میں غیر قانونی تارکینِ وطن کو بڑی تعداد میں ملک بدر کرنا شروع کردیں گے۔ اب عوام یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں۔ ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ ملک بدری کے لیے فوج کو بھی استعمال کرنا پڑا تو استعمال کیا جائےگا۔