مصنوعی ذہانت نے انسان کو جس قدر آسانیاں فراہم کی ہیں اُسی قدر ناک میں دم بھی کر رکھا ہے۔ دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت سے بھرپور کام لیا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا دکھائی دیتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں انتہائی نوعیت کے بحران پیدا ہو رہے ہیں۔
ہر شعبے میں مصنوعی ذہانت سے بھرپور مدد لی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں بعض شعبوں میں افرادی قوت کی ضرورت خطرناک حد تک گھٹ گئی ہے۔ کئی شعبوں میں انسان کی ضرورت اِتنی گھٹ گئی ہے کہ بعض اوقات کسی کی ضرورت پڑتی ہی نہیں۔
مصنوعی ذہانت کے گاڈ فادر کہلانے والے جیوفری ہنٹن کہتے ہیں کہ پہلے میرا یہ اندازہ تھا کہ 3 عشروں کے اندر مصنوعی ذہانت انسان کے تمام معاملات اپنے ہاتھ میں لے چکی ہوگی مگر اب ایسا لگتا ہے کہ اِس سے پہلے ہی ایسا ہو جائے گا۔ 30 سال کے اندر تمام معاملات پر مصنوعی ذہانت کے چھا جانے کے امکانات 10 تا 20 فیصد ہیں۔
جیوفری ہنٹن کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے انسان کا پریشان ہونا بنتا ہے کیونکہ اِس کے پھیلاؤ کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ اب کوئی بھی معاملہ مصنوعی ذہانت کی دسترس سے باہر نہیں۔ کل تک یہ سمجھا جارہا تھا کہ انسان بہرحال انسان ہے، اُس کی ضرورت تو پڑتی ہی ہے۔ اب ماہرین کو اپنی آرا پر نظرِثانی کرنا پڑے گی۔
معاملہ یہ ہے کہ جیوفری ہنٹن نے پیش گوئی کی تھی کہ مصنوعی ذہانت جس تیزی سے اور جس ہمہ گیری کے ساتھ پھیلتی جارہی ہے اُسے دیکھ کر لگتا ہے کہ 3 عشروں کے اندر روئے ارض سے انسان کا نام و نشان مٹ جانے کا امکان 10 فیصد تک ہے مگر اب یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسا امکان 10 سے 20 فیصد تک ہے۔
ٹیکنالوجی سے متعلق امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کا پھیلاؤ بہت زیادہ اور بہت خطرناک ہے مگر انسان منظر سے غائب ہوتا جارہا ہے۔ آن لائن کلچر نے کسی بھی شعبے کو نہیں بخشا۔ ایسے میں لازم ہوچکا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں پیدا ہونے والے خطرات کا نئے سِرے سے جائزہ لیا جائے اور انسانیت کے مستقبل کو محفوظ رکھنے کی حکمتِ عملی ترتیب دی جائے۔