ٹرمپ کا اپنا ایجنڈا اور چیلنجز ہیں،عمران خان عدالتوں سے ہی رہا ہوں گے

67

اسلام آباد ( میاں منیر احمد) جسارت کے اس سوال کے جواب میں سیاسی راہنمائوں‘ تجزیہ کاروں‘ دانش وروں اور کاروباری طبقے نے ملے جلے جذبات کا اظہار کیا ہے‘ تاہم اتفاق اسی بات ہے کہ عمران خان کی رہائی عدالت کے ذریعے ہی ہوگی‘ سول سوسائٹی کے ممبر سید ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ نومنتخب صدر ٹرمپ نے ابھی تک عمران خان کے حوالے سے کوئی ٹوئٹ یا بیان نہیں دیا درحقیقت ان کے اب تک کے پالیسی ایجنڈے میں پاکستان کا سرے سے ذکر ہی نہیں آیا۔ ٹرمپ کا اپنا ایجنڈا ہے اور ان کے اپنے چیلنجز ہیں۔ٹرمپ کا اصل فوکس امریکا کے اندر اصلاحات لانے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ’راہ راست‘ پر لانے، ڈیمو کریٹس کو سبق سکھانے، سرکاری اخراجات کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن سے امریکا کو محفوظ بنانے پر ہے۔ یوکرائن جنگ ختم کرانا ان کی ترجیح ہوگی، مڈل ایسٹ پر کوئی بڑا سمجھوتا کرنا بھی ان کے ٹاسک میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ نیٹو کے اخراجات کے لیے یورپ پر زیادہ مالی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ بھی ٹرمپ کا فوکس ہے‘ان بڑے ایشوز کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور پھر پاکستان کی داخلی سیاست پر توجہ کرنا اور اسیر عمران خان کی رہائی
کے لیے دباؤ ڈالنا شاید صدر ٹرمپ کی ترجیحات یا کہہ لیں ٹاپ 10 ترجیحات میں نہ ہو۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے مخالفانہ رویہ یا سوچ کی حامل نہیں ہوگی۔ وہ پرو عمران خان نہیں مگر اینٹی عمران خان بھی نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے ایک خاص قسم کا سردمہری والا رویہ اپنائے رکھا۔ تحریک انصاف سے وابستہ اوورسیز پاکستانیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کانگریس میں تو قراردادیں منظور ہوئیں، ارکان اسمبلی نے صدر کو خطوط بھی لکھے، مگر وائٹ ہاؤس نے انہیں درخوراعتنا نہ سمجھا اور بائیڈن انتظامیہ کا رویہ عمران خان مخالف ہی رہااس لیے لگ رہا ہے کہ اگرتحریک انصاف کے حامی اوور سیز پاکستانیوں کی لابی مؤثر رہی تو عین ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں انہیں کسی قدر ہمدردی مل سکے صدر ٹرمپ نے ایک ایسے شخص کو اپنا مشیر بنایا ہے جو واضح طور پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر چکا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں اس مطالبے کو دہرایا۔ اس سے پہلے بائیڈن انتظامیہ میں اس سطح پر کوئی امریکی عہدے دار تحریک انصاف کے لیے ایسا سافٹ کارنر نہیں رکھتا تھا۔تحریک انصاف کے لوگ خصوصاً سوشل میڈیا ایکٹوسٹس بہت زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں، ممکن ہے ویسا نہ ہو، مگر بہرحال کوشش کرنے پر انہیں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور مل سکتی ہے۔ یہ البتہ دیکھنا ہوگا کہ کسی امریکی عہدے دار کا ایسا بیان یا ٹوئٹ یا ماضی کی طرح امریکی کانگریس میں منظور کی جانے والی کوئی قرارداد کا پاکستان میں کیا اثر پڑے گا؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ان تمام کوششوں کے نتیجے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے بھی کوئی ٹوئٹ آتا ہے؟ ایسے کسی بھی ٹوئٹ کا بہرحال اثر زیادہ ہوگا اور اسے نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ایک اہم فیکٹر چین کا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بظاہر اینٹی چین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ اگر چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر پاکستان پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ ممکن ہے اس دباؤ بڑھانے کے زمرے میں امریکا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی یاد آجائیں اور پھر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ ان تمام نکات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف اگر 20 جنوری کا انتظار کر رہی ہے اور اسے کسی کرشمے کی توقع ہے تو تحریک انصاف کو محمود خان اچکزئی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو آگے کر کے پی پی پی اور ن لیگ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں۔ سیاسی ٹمپریچر کم کرنے کے لیے اپوزیشن کو کچھ رعایتیں ملنی چاہییں‘ تجزیہ کار اعجاز احمد نے کہا کہ اصل بات کچھ اور ہے بہانہ عمران خان ہے اور نشانہ پاکستان ہے ‘ ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ میں انڈیا اور اسرائیل نواز لوگ رکھے ہیں‘ یہ پاکستان کے لیے انسانی حقوق کا واویلہ کرتے ہیں اور کریں گے لیکن اسرائیل نے جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے اس پر تو ٹرمپ خاموش ہے‘ بھارت جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے ٹرمپ اس پر بھی خاموش ہے‘ معاملہ یہ ہے کہ امریکی انظامیہ سی پیک نہیں چاہتی‘ اور وہ یہ بھی نہیںچاہتی کہ پاکستان کسی نئے معاشی بلاک کا حصہ بن جائے‘ وہ یہ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان امریکا کی دسترس سے باہر نکل جائے‘ لہٰذا اس نے پاکستان کا بازو مروڑنا ہے اور عمران خان انہیں ایک بہانہ مل گیا ہے ٹرمپ انتظامیہ کے عہدیدار رچرڈ گرینیل ‘ ان کا ذاتی کردار جیسا بھی ہو‘ انہوں نے تمام اخلاقیات کی حدیں پار کر دی ہیں اور سفارتی نزاکتوں کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے‘ ایسا لگ رہا ہے کہ عمران خان کے لیے محبت کم ہے اور پاکستان کو زیادہ نشانہ بنانے پر توجہ ہے‘ امریکا نہیں چاہتا ہے کہ پاکستان چین اور روس کے قریب ہوجائے‘ بیلا روس کے قریب ہوجائے‘ ہمیں ایس سی او اور بیلا روس کے صدر کے دورہ پر پاکستان میں حالات خراب کرنے احتجاج کرنے کے پیچھی جو کانی ہے اسے تلاش ضرور کرنا چاہیے‘ پاکستان مسلم لیگ(ن) کے راہنماء ناصر محمود نے کہا کہ اکچھ بیانات تو ایسے آئے ہیں اور آررہے ہیں لیکن ممکن نہیں ہے اور مقدمات کا فیصلہ عدالت نے ہی کرنا ہے‘ بیرونی دبائو پر کسی کی رہائی ممکن نہیں ہوتی‘ فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق ایگزیکٹو ممبر‘ پیپلزپارٹی کے راہنماء‘ پیپلز ٹریڈر سیل کے مرکزی راہنماء عمران شبیر عباسی نے کہا کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے زور دیا اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا تو عمران خان کی رہائی ممکن ہوسکتی ہے اب صرف ہمیں اس بات کادھیان رکھنا ہے کہ ٹرمپ انظامیہ محض بیان بازی کرے گی یا کوئی ایسی سنجیدہ کوشش بھی کرے گی‘ عالمی سیاسی امور کے معروف تجزیہ کار شیخ اظہر اقبال نے کہا کہپاکستان کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی سوال ہر جگہ زیربحث ہے کیا ٹرمپ انتظامیہ تحریک انصاف کے لیے مسیحا ثابت ہوسکتی ہے اور کیا امریکا سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے؟ تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟ یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان بعض امور پر امریکی دباؤ کی کوئی پروا نہیں کرتا اور اس کی پالیسی یکساں اور غیر متزلزل ہے۔ جیسے ایٹمی پروگرام پر اور عسکری استعداد خصوصاًمیزائل پروگرام پر کسی قسم کا دباؤ خاطر میں نہیں لایا گیا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایک حد سے زیادہ دباؤ ڈالنے پر باؤنس بیک کرتی ہے اور یہ بات امریکی حکومت اچھی طرح جانتی ہے۔پاکستان نے امریکا کی خاطر اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کبھی تعلقات نہیں بگاڑے‘ پاکستان نے بھارتی برتری کے آگے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے خواہ امریکی یہ چاہتے اور کہتے ہوںاسی طرح پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود کبھی چین سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔ پاکستان کے عسکری معاملات ہمیشہ چین کے ساتھ جڑے رہے، خواہ امریکی اس پر جس قدر ناک بھوں چڑھاتے رہے ہوں۔ پاکستان سی پیک کو ترک کرنے کے حوالے سے امریکی دباؤ کی ابھی تک مزاحمت کر رہا ہے۔ ایک اور معاملہ جس پر امریکی کانگریس نے بھی خاصا دباؤ ڈالا، مگر ہم نے اس پر اسٹینڈ لیا وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے نہ کرنا ہے اور سردست اس کی رہائی کے امکانات کم ہی ہیں‘ بزنس کمیونٹی کے سینئر ممبر اسد خان نے کہا کہ پاکستان کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت یا قوت مزاحمت میں کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے کمی آئی ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے یا کچھ منوانے کے لیے سب سے آسان اور مؤثر طریقہ آئی ایم ایف معاہدہ ہے۔ہر 3 مہینے کے بعد آئی ایم ایف معاشی پروگرام کا جائزہ لیتا ہے اور پھر یہ طے کرتا ہے کہ اگلی قسط دی جائے یا نہیں؟ پاکستان کا معاشی استحکام بڑی حد تک آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ جب یہاں سے قرض مل جاتا ہے تو معاشی ریٹنگ بھی بہتر ہوجاتی ہے، دوست ممالک قرض بھی دے دیتے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ بھی تیزی سے اوپر کی طرف جاتی ہے۔ امریکا کو کچھ منوانا ہو تو اس بار لیوریج آئی ایم ایف ہی ہوگا۔