ایک پروگرام میں حامد میر نے جب مشاہد حسین سید سے پوچھا کہ ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف نے محمود غزنوی کو لٹیرا کہا ہے تو پھر ہم نے اپنے میزائل کا نام غزنوی کیوں رکھا ہے اس بیان کی افغان گورنمنٹ نے شدید مذمت کی ہے اور اسے مسترد کردیا۔ مشاہد حسین سید نے کہا کہ یہ بڑی شاکنگ یعنی حیرت اور افسوس کی بات ہے محمود غنوی تو ہمارا ہیرو ہے یہ تو مودی کہتا ہے، ہندوتوا والے کہتے ہیں یا آر ایس ایس والے کہتے ہیں ہم کیوں ان کی زبان بول رہے ہیں پھر انہوں نے کہا کہ علامہ اقبال 1937میں جب افغانستان گئے تو انہوں نے وہاں کے بادشاہ نادر شاہ کا ہاتھ چوما اور کہا کہ میں آپ کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتا ہوں اس لیے کہ آپ ایک آزاد ملک کے آزاد بادشاہ ہیں۔ نادر شاہ نے علامہ سے آنے کا مقصد پوچھا تو علامہ نے جواب دیا میں غزنی جانا چاہتا ہوں اور وہاں محمود غزنوی کی مزار پر جاکر ان کی خدمت میں سلام پیش کرنا چاہتا ہوں پھر انہوں نے علامہ کا ایک شعر پڑھا۔ نہ وہ غزنوی تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں؍ میں جو سر بسجدہ کبھی ہوا؍ توزمین سے آنے لگی صدا؍ تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں۔
محمود غزنوی 2 اکتوبر 971 میں پیدا ہوئے ان کا پورا نام ابوالقاسم محمود تھا۔ باپ کا نام ناصر الدین سبکتگین تھا جو الپتگین کا ترک غلام تھا المتگین کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ابو اسحاق تخت غزنی پر بیٹھا پھر بلکا تگین اور پر تگین جو الپتگین کے غلام تھے بادشاہ بنے ان تینوں کا دور حکومت مختصر رہا آخر میں امرائے دربار نے 20 اپریل 977 میں اتفاق رائے سے سبکتگین کو غزنی کا بادشاہ منتخب کیا۔ ایک دو سال کے اندر ہی امیر سبکتگین نے بہت سی فتوحات کیں۔ 994 میں محمود کو ’’سیف الدولہ‘‘ کا خطاب دے کر خراسان کا گورنر بنایا گیا۔ دو سال بعد سبکتگین کا بلخ میں انتقال ہوگیا۔ اس نے اپنے دوسرے بیٹے اسماعیل کو جانشین مقرر کیا جو اس وقت اس کے پاس تھا اسماعیل نے بلخ کے مقام پر فوراً تخت و تاج سنبھال لیا۔ اس وقت محمود نیشاپور میں تھا۔ محمود نے اسے برادرانہ انداز میں پیشکش کی کہ سلطنت کو برابر حصوں میں تقسیم کر لیا جائے لیکن اسماعیل نے اسے مسترد کردیا۔ چنانچہ تخت و تاج کی وراثت کے لیے دونوں بھائیوں میں 998ء میں جنگ ہوئی۔ محمود فتحیاب ہوا اور 998 میں غزنی کا حکمران بن گیا۔
سلطان محمود غزنوی سکندر اعظم کی طرح ایک خوش نصیب جوان تھا جس کے قابل اور منتظم باپ نے اسے ورثے میں بہت بڑی سلطنت دی، سکندر کی طرح محمود کو بھی اپنے باپ کی طرف سے ایک جرار، آزمودہ کار اور منظم لشکر ملا۔ محمود غزنوی نے اپنے باپ کی بادشاہت میں غزنی میں ایک خوبصورت باغ اور مکان بنواکر اعیان حکومت، امرائے سلطنت اور خود شاہ مملکت کی ضیافت کی اس وقت امیر سبکتگین نے اپنے نامور بیٹے کو یہ کارآمد نصیحت کی۔ ’’یہ باغ اور عمارت بہت عمدہ اور دلفریب ہے مگر اس قسم کاباغ اور مکان ہر وہ امیر بنا سکتا ہے جس کے پاس دولت ہے، مگر بادشاہوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ایسی عمارت تعمیر کریں جس کی مانند دوسرے امراء تیار نہ کرسکیں یہ عمارت علم و عمل سے بنتی ہے‘‘۔ محمود نے باپ کی یہ نصیحت گرہ میں باندھ لی اور اپنی آئندہ زندگی اس پر عمل کرتے گزاری۔
سلطان محمود غزنوی زیادہ تر ہندوستان پر اپنے سترہ حملوں کی وجہ سے عالمگیر شہرت رکھتا ہے۔ ان دنوں ہندو راجائوں کا ایک خاندان، جو ہندوشاہی کہلاتا تھا، پنجاب پر حکومت کرتا تھا محمود کے باپ امیر سبکتگین کے زمانے میں اس شاہی خاندان کے ایک راجا جے پال نے بہت سے ہندو راجائوں کو ساتھ لے کر کابل پر چڑھائی کی اور شکست کھائی اور خراج ادا کرنے کا وعدہ کرکے لوٹا محمود ان معرکوں میں باپ کے ساتھ ساتھ رہا تھا اور ہندو سپاہیوں کی طاقت کو اچھی طرح آزما چکا تھا باپ کی وفات کے بعد جب غزنی میں اس کے قدم اچھی طرح جم گئے تو اس نے ہندوستان پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کیا اور سترہ حملے کرکے اس سرزمین میں ہلچل مچادی۔ سلطان محمود نے وادی گنگا پر پورے زور سے پہلی مرتبہ جو حملہ کیا اس میں قنوج، بلند شہر، متھرا، اٹاوہ، میرٹھ کے علاوہ کئی اور چھوٹے بڑے شہر فتح ہوئے۔ اس موقع پر اسے جو کامیابی حاصل ہوئی تھی، اس کی وجہ سے سارے عالم اسلام میں اس کی بہادری اور اولوالعزمی کی دھاک بیٹھ گئی۔ محمود نے پنجاب کو غزنوی سلطنت میں مستقل طور پر شامل کرلیا اور لاہور اس صوبے کا صدر مقام قرار پایا سلطان محمود کا سب سے بڑا کارنامہ سومناتھ کی فتح ہے سومناتھ گجرات، کاٹھیاواڑ کے علاقے میں سمندر کے کنارے واقع ہے یہاں ایک مشہور مندر تھا جس کی یاترا کو دور دور سے لوگ کھنچے چلے آتے تھے، کہاں غزنی کہاں گجرات، اگرچہ راجپوت ہر طرف سے سمٹ کر یہاں جمع ہو گئے تھے فوجوں کا تانتا بندھا ہوا تھا لیکن محمود نے اس طرح جھپٹ جھپٹ کر حملے کیے کے راجپوتوں کی فوج تتر بتر ہوگئی۔ اس فتح میں انگنت دولت ملی۔ سومنات کا بت بھی ہاتھ آیا۔ چنانچہ اس کامیابی پر اسلامی ملکوں میں جابجا بڑی خوشیاں منائی گئیں۔
محمود غزنوی کی فوج کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی دوران جنگ رضاکاروں کی شرکت سے بہت اضافہ ہوجاتا۔ زمانہ امن میں سلطان کا وزیراعظم فوج کے انتظامی امور کا ذمے دار ہوتا تھا۔ وزیر اعظم نے اپنی مدد کے لیے ایک تجربہ کار اور ممتاز افسر کو ’’عارض‘‘ کے عہدے پر متعین کردیاتا تھا تاکہ فوجی مسائل سے بخوبی واقف ہونے کے باعث تنظیم، تربیت اور دیگر انتظامی معاملات میں پوری دلچسپی لے سکے۔ سپاہیوں کو ہر تین ماہ بعد تنخواہیں ملتی تھیں۔ دوران جنگ عساکر کے اہل و عیال کی خبرگیری بھی عارض کے ذمے ہوتی تھی۔ فتح کے بعد عارض ہی تمام مال غنیمت جمع کرتا اور سلطان کے حکم کے بموجب اسے تقسیم کرتا تھا۔ غنیمت کی تقسیم شرعی طریق پر ہوتی تھی۔ مثلاً پیادہ کو سوار سے نصف حصہ ملتا اور غنیمت کا پانچواں حصہ سلطان کے خزانے میں بھیج دیا جاتا۔
سلطان محمود غزنوی نے 32 برس تک بڑی شان و شوکت سے حکومت کی۔ اس کا شمار دنیا کے بڑے بڑے سپہ سالاروں میں ہوتا ہے۔ محمود بڑا عادل اور انساف پسند فرمانروا تھا۔ وہ وقتاً فوقتاً اپنی سلطنت کے مختلف حصوں کا دورہ کرتا رہتا تھا، تاکہ اس کو مختلف علاقوں کے حالات سے آگاہی ہوتی رہے۔ اس نے سوداگروں اور دکانداروں کی نگرانی کے لیے جا بجا افسر مقرر کر رکھے تھے۔ کوئی تاجر مول تول میں گاہک کو دھوکا دیتا تو پکڑا جاتا اور اسے سخت سزا دی جاتی محمود غزنوی کی سلطنت بڑی مضبوط تھی۔ ساری سلطنت میں پورا پورا امن و امان تھا۔ سڑکیں محفوظ تھیں اور لوگ خوشحال اور مطمئن تھے۔ دوسری خوبیوں کے علاوہ محمود علماء اور شعراء کا بڑا قدر دان تھا احکام شریعت پر بھی پوری طرح عمل کرتا تھا۔ لیکن تعصب اور مذہبی تنگ نظری سے ہمیشہ اس کا دامن پاک رہا۔ اس نے کبھی کسی غیر مسلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ پانچوں وقت کی نماز پڑھتا اور ہر روز قرآن مجید کی تلاوت کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑا شجاع اور بہادر شخص تھا خطرے کے وقت ذرا نہ گھبراتا کیسی ہی مصیبت کیوں نہ آ پڑے وہ ہمت نہ ہارتا تھا۔ میدان جنگ میں فوج کے آگے آگے نظر آتا اور بڑھ بڑھ کر تلواریں مارتا تھا۔ اس کی ذاتی شجاعت کی وجہ سے سپاہیوں کے حوصلے بڑھتے اور وہ جی توڑ کر لڑتے تھے۔
سلطان محمود نے نہ صرف فتح ممالک اور جمع اموال میں کمال حاصل کیا بلکہ علم و ادب کی بھی سرپرستی کی اور اپنے دربار میں زمانے بھر کے منتخب شعراء اور علماء و فضلا جمع کردیے جن شعراء نے محمود کے دربار میں شہرت پائی ان میں فردوسی، عنصری، عسجدی اور فرخی خاص طور پر مشہور ہیں۔ سلطان محمود ایک عجیب دل گردے کا مالک تھا اور زبردست قوت ارادی کا انسان تھا 1027ء میں اسے بخار رہنے لگا جس نے تپ دق کی صورت اختیار کرلی۔ اس کے باوجود اس نے اپنے معمولات میں فرق نہ آنے دیا۔ دربار اور باریابی کا سلسلہ اسی طرح برقرار رکھا۔ خراسان سے سلجوقیوں کو نکالا۔ رے کی بغاوت کو فرو کیا۔ 1029ء کا موسم گرما خراسان میں اور اگلا موسم سرما بلخ میں گزارا۔ لیکن اب صحت نے بالکل جواب دے دیا۔ اور 22 اپریل 1030 کو غزنی واپس آنا پڑا۔ سات آٹھ روز کے بعد قضا کا پیغام آپہنچا۔