ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی سیاست سے سبق حاصل کرنا چاہیے جیسے ہم سیاسی انتقام لینے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ کل جیل کی سلاخیں، پارٹی پر زوال، کارکناں کی گرفتاریاں ہمارا بھی مقدر بن سکتی ہیں۔ جو لوگ اپنی انا کے بت سے باہر نہیں نکل پاتے وہ ہمیشہ وہ اپنے ہی خول میں قید رہتے ہیں۔ چلیں تھوڑا ماضی پر نظر ڈالتے ہیں بھٹو صاحب کی آمریت عروج پر تھی اپوزیشن کی جماعتیں بکھری ہوئی تھیں کسی میں احتجاج کرنے کی جرأت نہیں تھی ایسے میں بھٹو صاحب کی انا نے خود ہی حماقت کر ڈالی آئینی طور پر بھٹو صاحب کے پاس اقتدار کی مدت 1978 تک تھی بھٹو صاحب کو 1976 میں مقتدر ذرائع نے رپورٹ دی کہ اس وقت پیپلزپارٹی پورے ملک پر چھائی ہوئی ہے حزب اختلاف بکھری ہوئی ہے اگر ایسے میں انتخابات کرادیے جائیں تو پیپلزپارٹی اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوجائے گی بھٹو صاحب کو یہ تجویز پسند آئی اور انہوں نے جنرل الیکشن کا اعلان 1977 میں ہی کر ڈالا یہ وہ موقع تھا جس کا فائدہ اپوزیشن کی جماعتوں نے مل کر بھر پور انداز سے اُٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے نو جماعتوں کا اتحاد ملک کی سیاست پر چھا گیا جنرل الیکشن کے پانچ ماہ بعد بھٹو صاحب کی غلطی ان کو اقتدار کی مدت سے پہلے ہی رخصتی پر لے گئی۔
2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں عمران خان کو اکثریت نہ ہونے کے باوجود وزیر اعظم کے منصب پر براجمان کرادیا گیا اور کہا گیا کہ آپ اب احتساب کے نام پر انتقام لیں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور پھر خان صاحب نے طاقتور ہونے سے زیادہ طاقتور ہونے کا مظاہرہ کیا اور پھر ملک میں احتساب کے نام پر جو تماشا لگا وہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ احتساب کے نام پر جو کھیل شروع کیا گیا اس نے خان صاحب کی سیاست کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ جو لوگ خان صاحب کی مقبولیت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ خان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان ملک کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔ مقبول ترین سیاستدان ہونے اور مقبول ترین شخصیت میں بڑا فرق ہے سیاستدان اپنے تمام تر فیصلے سیاسی حکمت عملی کے تحت کرتا ہے جبکہ مقبول ترین شخصیت اپنے تمام تر فیصلے اپنی انا کے خول میں رہتے ہوئے کرتا ہے جب خان صاحب برسر اقتدار آئے تو بھٹو صاحب کی طر ح خان صاحب کو بھی رپورٹ ہوئی کہ اس وقت تحریک انصاف کا پورے ملک میں توتی بول رہا ہے اس وقت آپ جو فیصلے اپوزیشن کے خلاف کریں گے اس سے آپ کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا بس وہ ہی غلطی جو بھٹو صاحب کو اقتدار سے لے گئی وہ ہی غلطی عمران خان صاحب نے بھی دُہرائی اور ن لیگ کو پوری طاقت کے ساتھ کچلنے کی ہر ممکن جدوجہد کی گئی مگر ایک بار پھر اپوزیشن کی یکجہتی PDM کا اتحاد خان کے اقتدار کو آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے ہی رخصت کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
یہ اس ملک و قوم کی بد نصیبی رہی ہے کہ وطن عزیز کو آج تک غیر جانبدار شفاف انتخابات سے محروم رکھا گیا ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہر انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا اہم کردار رہا ہے ہم سمجھتے وہ یکطرفہ رائے پیش کرتے آئے ہیں دراصل ہماری نظر میں ہر دور میں جمہوریت کے پنڈتوں کا کردار بڑا اہم رہا ہے ہر ایک نے رات کے اندھیروں میں خفیہ ملاقاتوں کی روایت کو جنم دیا ہے ن لیگ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف سمیت ہر کوئی اقتدار کے لیے ہمیشہ سے بے ساکھیوں کی تلاش میں رہا ہے کوئی بھی جماعت اپنے نظریے اپنے سیاسی منشور کی بنیاد پر اقتدار کی کرسی حاصل نہیں کر سکی۔
آخر ہم کیوں ایک دوسرے کی غلطیوں سے سبق حاصل نہیں کرتے؟ آخر کیوں ہم میں برداشت نہیں؟ آخر کیوں ہم سیاسی انتقام کی آگ کو بجھانے کی کوشش نہیں کرتے؟ ملک میں احتساب کا عمل کرپشن کا خاتمہ سیاسی انتقام کی روایت اُس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک ہم میں برادشت پیدا نہیں ہوجاتی۔ ہاں البتہ اس ملک کے اقتدار پر براجمان کیے جانے والی جماعتیں اور شخصیات کو اپنے اپنے خول سے باہر نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔