شام سے اچھی خبریں، کیا یہ وہی صبح ہے

280

شام میں ہونے والی تبدیلیاں ہمیں بہت سے پہلوؤں پر غور کی دعوت دے رہی ہیں یہ بات درست ہے کہ اسد خاندان کے پچاس سالہ دور کا خاتمہ ہوگیا ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ ہئیت التحریر الشام کو کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں، لیکن اس دجالی دور میں ہر وہ چیز وہ نہیں ہے جو نظر آرہی ہے بلکہ ہر چیز کے پیچھے کوئی نئی کہانی نکلتی ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ نتائج کیا آرہے ہیں حالات کس رخ پر جارہے ہیں، اگر کسی کو یاد ہو کہ جب افغانستان میں سوویت یونین داخل ہوا تھا تو کابل یونیورسٹی کے طلبہ اور کچھ مذہبی جماعتوں نے مزاحمت کی اور سوویت فوجوں کا راستہ روکا، اس کے بعد امریکا اور مغربی ممالک اس جنگ میں کودے اور دیکھتے دیکھتے اسے امریکا اور روس کی جنگ ثابت کردیا گیا، پوری افغان جنگ میں مزاحمت صرف افغان مجاہدین نے کی، پوری جنگ سات جماعتی افغان اتحاد نے لڑی، پاکستان میں جماعت اسلامی افغان جہاد کی سب سے بڑی پشتیبان رہی، لیکن صرف چند برسوں میں سات جماعتی اتحاد میں اختلافات پیدا ہوگئے اور یہ اختلافات لڑائیوں میں بھی تبدیل ہوگئے، ان ہی دنوں میں امریکا اس جنگ کا سرخیل بن گیا اور ابتدائی مزاحمتی گروپ اور مجاہدین 1990 کے بعد سے دہشت گرد قرار پاگئے۔

1977 سے 1996 تک افغانستان کی مزاحمتی جدوجہد میں کسی نے کبھی مدرسے کے طلبہ، مولوی حضرات اور تحریک طالبان کا نام نہیں سنا تھا۔ اسی طرح افغان جہاد میں شامل 7 جماعتوں میں سے کسی ایک نے بھی نے جہاد میں ملا عمر نامی کمانڈر کا کوئی کردار یا کارنامہ سنا یا نہیں دیکھا تھا۔ نہ کسی اخبار میں یہ رپورٹ آئی، مسلم تحریکوں پر خورد بین نگاہ رکھنے والوں نے بھی ایسی کوئی اطلاع نہیں دی لیکن سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب طالبان کا ظہور ہوا تو وہ 2 سے 3 ہفتوں میں ایک طاقتور فوج بن گئے حالانکہ 1978 سے 1994 تک جہاد میں شامل کسی بھی گروپ کو طالبان نامی کسی جماعت کی کوئی شنید، کوئی خبر کوئی آگاہی نہیں تھی۔ اور ان ہی طالبان نے افغانستان کو دیکھتے ہی دیکھتے 5 سے 10 روز میں فتح کرلیا، حکمت یار، یونس خالص، ربانی، مجددی، حقانی، احمد شاہ مسعود و دوستم سب باہر ہوگئے، وہ سب یہ کہنے میں حق بجانب تھے کہ منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ طالبان نے جدید ترین امریکی اور روسی ہتھیاروں، ٹینکوں اور جہازوں کے استعمال کی تربیت کہاں اور کتنے عرصے میں حاصل کی تھی، اس کا جواب آج تک نہیں ملا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ کسی سنجیدہ حلقے نے یہ سوال ہی نہیں اٹھایا، تو درست یا غلط کا فیصلہ تو اس کے بعد ہوتا۔ یہی سب کچھ دوسرے انداز میں عراق سے امریکی انخلا کے موقع پر ہوا، ادھر امریکی عراق سے نکل رہے تھے ادھر بھاری اسلحے سے لدے ہوئے قافلے کھلے عام عراق سے شام کی جانب شاہراہوں پر سفر کرتے ہوئے نکلے اور چند روز میں دولت الاسلامیہ عراق والشام (داعش) وجود میں آ گئی، اور مسلم دنیا میں اسی طرح خوشی کی لہر دوڑ گئی جیسی آج کل ہے، لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہی داعش دہشت گرد تنظیم قرار پائی اور اب ساری مسلم دنیا کی حکومتیں داعش کی سرکوبی میں مصروف ہیں۔

اس صورتحال اور مختصر تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کچھ اور قوتیں بھی اس میدان میں ہیں اور کبھی خود پیچھے رہ کر کھیلتی ہیں اور کبھی دوسرے کے کھیل میں کودکر خود چمپئن بن جاتی ہیں۔ اگر شام کے حالات کو بھی بغور دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل گویا تیار ہی بیٹھا تھا کہ بشار الاسد کی حکومت ختم ہو تو وہ ایک طرف گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرے اور دوسری طرف شام کی فوجی تنصیبات اور انفرا اسٹرکچر کو تباہ کردے، اسرائیل تو ایسا ہی کرتا کیونکہ اس کا کام ہی یہ ہے لیکن ذرا ایران عراق جنگ، عراق کی کویت پر چڑھائی پھر امریکا کا عراق پر حملہ سامنے رکھیں اور نتائج دیکھیں مسلم دنیا کی فوجی اور معاشی طاقت کا خاتمہ، یہی کام حماس کے اکتوبر 2023 کے حملوں کے نتیجے میں بھی ہوا، غزہ کی عمارتیں، اسپتال، تعلیمی ادارے یعنی بنیادی ڈھانچا، سب کچھ تباہ کر دیا گیا، افغانستان میں بھی یہی ہوا، امریکا چلا گیا اور طالبان کی حکومت کو پاکستان اور پڑوسیوں سے الجھا دیا گیا، لیبیا میں بھی یہی کارروائی دہرائی گئی، اور ہر جنگ خواہ وہ لبنان کی ہو، یمن کی خانہ جنگی ہو، سوڈان کی لڑائیاں ہوں ان سب میں نشانہ مسلم دنیا کے وسائل اور انفرا اسٹرکچر یعنی بنیادی ڈھانچے کو بنایا گیا ہے۔

اب یہ سوچا جائے کہ شام کے لشکروں کی کامیابیوں کا فائدہ مسلم امہ کو کیسے ملے، بلا شبہ یہ بڑی کامیابی ہے لیکن مسلم حکمرانوں سے اس میں رکاوٹ کا خدشہ تو ہوسکتا ہے کسی تعاون کا کوئی امکان نہیں۔ اب یہ سوچا جائے کہ کوئی اور اس کا فائدہ نہ اٹھا لے۔ اور سب سے بڑھ کر اس پر نظر رکھی جائے کہ ساری دنیا میں جنگوں کا لیڈر امریکا ہمیشہ کی طرح ہر جگہ میدان میں شکست کھا کر اپنے دشمنوں میں انتشار کے بیج بوکر اسے ہوا دیتا رہتا ہے اس سے کیونکر بچا جائے۔ شام میں بشار کی شکست اور فرار کے ساتھ ہی شیعہ، سنی اختلاف کو ہوا دی گئی، ایران کے قدم لبنان میں روکنے اور اسے شام میں الجھانے کا کام بھی کیا گیا، عین ان ہی دنوں میں پاکستان میں کرم ایجنسی کا واقعہ ہوگیا، اب تک سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوچکے ہیں، حکومت اس معاملے کوکنٹرول نہیں کرپا رہی ہے یا بوجوہ کرنا نہیں چاہ رہی ہے، اور خدشات کے عین مطابق اس کا اثر کراچی منتقل ہوگیا، ان سارے واقعات کے ڈانڈے ایک ہی چیز سے ملتے ہیں اور وہ اتحاد امت ہے، اسے شیعہ، سنی، اہلحدیث، بریلوی، دیوبندی، جہادی غیر جہادی میں تقسیم کرکے، مسلمانوں کی سب سے بڑی قوت اتحاد امت کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے۔ اس وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جو لوگ پاکستان میں ہیں وہ اپنا کردار ادا کریں اور اختلاف کو فساد نہ بننے دیں اور جو شام اور فلسطین و عرب دنیا میں ہیں وہ بھی پرانی کہانی دہرانے کی کوششوں کو ناکام بنائیں ورنہ یہ شکوہ کرنے کا فائدہ نہ ہوگا کہ: ’’یہ وہ سحر تو نہیں‘‘ یا ’’منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے‘‘۔