انسانی خدمت کے اس اداراتی نظام (وقف) کا آغاز خود رسول کریمؐ کی ذات گرامی سے ہوا۔ مخیریق نام کا ایک یہودی تھا، جنگ احد میں شریک ہوا۔ وہ مشرکوں کے خلاف مسلمانوں کے ساتھ لڑا اور اسی جنگ میں مارا گیا۔ انھوں نے وصیت کی تھی کہ اگر میں مارا جاؤں تو میری جائیداد محمدؐ کو دے دی جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق تصرف میں لائیں۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’مخیریق اچھا یہودی تھا‘‘۔ (ابوجعفر ابن جریر طبری، تاریخ الطبری) مخیریق کے سات باغ تھے، رسول کریمؐ نے ان کو اپنے قبضے میں لیا اور فی سبیل اللہ وقف کردیا‘‘۔ (برہان الدین الطرابلسی، الاسعاف فی احکام الاوقاف)
اسلامی تاریخ میں یہ پہلا وقف تھا جو رسول کریمؐ کے ہاتھوں انجام دیا گیا۔ دوسرا وقف خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کا تھا۔ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ’’سیدنا عمرؓ کو خیبر میں ایک زمین ملی تو انھوں نے رسول کریمؐ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! مجھے خیبر میں ایک مال ملا ہے جس سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، آپ مجھے اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبیؐ نے فرمایا کہ اگر تم چاہو تو اس کے اصل مال کو باقی رکھو اور اس کی آمدنی کو صدقہ کردو، مگر شرط یہ ہوگی کہ اصل مال نہ بیچا جائے گا، نہ ہبہ کیا جائے گا اور نہ وراثت میں جائے گا۔ سیدنا عبداللہ ابن عمرؓ نے کہا کہ عمرؓ نے اس زمین کو اس شرط کے ساتھ صدقہ (وقف) کردیا کہ نہ وہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ اس میں وراثت جاری ہو۔ اس کی آمدنی فقراء، قرابت داروں، غلام کی آزادی، مہمان اور مسافر کے لیے ہوگی۔ (الصحیح البخاری، کتاب الشروط)
صدر اسلام کا تیسرا وقف خلیفۂ سوم سیدنا عثمان غنیؓ نے کیا تھا۔ اس وقف کی تاریخ خود سیدنا عثمان غنیؓ اس طرح بیان کرتے ہیں: ’’جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو وہاں رومہ کنواں کے علاوہ کوئی میٹھے پانی کا کنواں نہیں تھا۔ نبیؐ نے فرمایا: کون ہے جو بیرِ رومہ کو خرید کر اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کو بھی شریک کرے گا؟ اس کی وجہ سے جنت میں اسے خیر ملے گی، تو میں نے اپنے اصل مال سے اس کنواں کو خرید لیا اور اس میں اپنے ڈول کے ساتھ مسلمانوں کے ڈول کوبھی شریک کرلیا‘‘۔ (سنن ترمذی، ابواب المناقب)
اس کے بعد صحابہ کرامؓ میں خدمت خلق کے لیے زمین، جائیداد وقف کرنے کا رجحان عام ہوگیا، اور لوگ کثرت سے رفاہی کاموں کے لیے جائیداد وقف کرنے لگے۔ عرب اور عجم کے ملکوں میں مسلمانوں نے وقف کا ایک بے مثال نمونہ قائم کردیا۔ مسلمان جہاں بھی گئے خدمت خلق اور رفاہی کاموں کے لیے مال وجائیداد وقف کرتے رہے۔ حجاز سے لے کر اندلس تک، ایران سے لے کر ازبکستان تک، ترکی سے لے کر مراقش تک اور مصر وشام سے لے کر ہندستان، پاکستان اور انڈونیشیا تک مسلمانوں نے عام انسانوں کی بھلائی اور ترقی کے لیے بے دریغ جائداد وقف کی۔ وقف کی املاک سے مسلم اور غیر مسلم ہر طبقے کے انسانوں کو فیض پہنچا۔ کیوں کہ جائیداد مسجد وخانقاہ کے علاوہ ہسپتال، سرائے، لنگر اور تعلیم گاہوں کے لیے بھی وقف کی جاتی تھی۔ مسلمانوں نے صرف انسان نہیں بلکہ حیوانات اور پرندوں کی خوراک کے لیے بھی جائیداد وقف کی۔ وقف کی یہ روشن روایت آج بھی آگے بڑھ رہی ہے۔