اختلاف راے اور اجتہاد

157

گزشتہ اْمتوں میں اللہ کے رسولوں اور پیغمبروں ہی کے ذریعے اللہ کے احکام کی وضاحت ہوتی تھی اور وہی اس مقام پر فائز تھے لیکن رسولؐ کی ختم نبوت کی برکت سے اس اْمت کو یہ اعزاز بخشا گیا کہ اس کے علما ایسے مسائل میں اجتہاد سے کام لیں، بشرطیکہ وہ احکامِ شریعت میں اجتہاد کرنے کے اہل بھی ہوں۔ آپؐ نے نہ صرف اجتہاد کی تلقین کی ہے، بلکہ حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کسی فقیہہ کا اجتہاد درست اور صائب نکلے، تو اس کو تو دہرا اجر ہے، لیکن جس سے اجتہاد میں چوک ہوجائے وہ بھی اجر سے محروم نہیں رہے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں ان دو میں ایک اجتہاد کو غلط کہا جائے گا؟ جب کہ ہمارے سامنے یقینی طور پر کسی راے کا صحیح اور کسی کا غلط ہونا واضح نہیں ہے، تو اس سلسلے میں ایک راے یہ ہے کہ دونوں کو صائب ہی سمجھا جائے گا اور اس اختلاف راے کی حیثیت ایسی ہوگی، جیسے بعض غلطیوں کے مختلف کفارات متعین کیے گئے ہیں اور انسان کو اس کی صلاحیت اور استطاعت کے اعتبار سے کفارہ ادا کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ یہ راے مختلف علما اور ہندستان کے علما میں شاہ ولی اللہؒ کی ہے۔ دوسری راے یہ ہے کہ اس میں ایک ہی راے درست سمجھی جائے گی اور دوسری خطا، لیکن ہر دو نقطۂ نظر میں درستی اور نادرستی کے احتمال کو تسلیم کیا جائے گا۔ یہ زیادہ تر اہلِ علم کی راے ہے، لیکن اجتہاد میں خطا نہ دنیا میں قابلِ گرفت ہے نہ آخرت میں۔ علامہ انورشاہ کشمیریؒ کی راے ہے کہ کن آرا میںکس فقیہہ کی راے درست تھی اور کن کی غلط؟ میدانِ حشر میں بھی اللہ تعالیٰ اس کو ظاہر نہیں فرمائیں گے۔ علامہ کشمیری کی یہ راے سمجھ میں آتی ہے، کیوں کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کا اعزاز فرمائیںگے اور یہ بات کہ ان کی کمزوریوں کو حشر میں ظاہر کیا جائے، ان کے اعزاز و توقیر کے خلاف محسوس ہوتی ہے۔

رسول اللہؐ کے اجتہاد کی اجازت دینے اور اجتہادی غلطی کو قابلِ عفو قرار دینے میں یہ بات شامل ہے کہ شریعت کے بہت سے احکام وہ ہیں جن میں ایک سے زیادہ راے کی گنجایش ہے اور ان میں فقہاے اْمت کے درمیان اختلاف ہو سکتا ہے، نیز یہ کوئی مذموم اور ناپسندیدہ بات نہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو یہ بات منظور ہوتی کہ احکامِ شریعت میں کوئی اختلاف نہ ہو، تو جیسے قرآن میں ایمانیات کو واضح کر دیا گیا ہے، اسی طرح تمام عقائد اور اعمالِ صالحہ کو ایسی وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہو تاکہ صحابہ اور بعد کے دور میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ یہ بات یقیناً خداے علام الغیوب کے علم میں تھی کہ میرے بندوں میں ایسے لوگ پیدا ہوںگے، جن کے درمیان اس کی تشریح و توضیح میں اختلاف ہوگا۔