’’قولِ بلیغ‘‘ قرآن مجید کی سورۂ نساء کی آیت 63 میں مذکور ہے۔ ارشاد ہوا:
’’اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، ان سے تعرض مت کرو، انھیں سمجھاؤ اور ایسی نصیحت کرو جو ان کے دلوں میں اتر جائے‘‘۔
قولِ بلیغ سے مراد ایسی گفتگو ہے جو دلوں میں اتر جائے اور اثر کرجائے۔ بلاغ اور تبلیغ بات پہنچا دینے کو کہا جاتا ہے۔ فصاحت اور بلاغت کے الفاظ بھی ارود میں معروف اور مستعمل ہیں۔ قولِ بلیغ معیاری اور مؤثر گفتگو کو کہا جاتا ہے۔ حضورؐ کو سورۂ نساء کی اس آیت میں ان منافقین کو قولِ بلیغ کے ذریعے وعظ و نصیحت کا حکم دیا گیا ہے جو اللہ اور رسول کی طرف دعوت دیے جانے پر آپ کے پاس آنے سے کتراتے تھے۔ یہاں قولِ بلیغ کا پس منظر سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا کافی ہوگا کہ جن لوگوں میں نفاق کا مرض ہو اور جو دوہری شناخت لیے پھر رہے ہوں، ان کے لیے محض قولِ معروف یا قولِ سدید ناکافی ہوگا، بلکہ ان کے لیے ایسی مؤثر گفتگو کے ذریعے نصیحت ضروری ہے جو ان پر اثر ڈال سکے اور وہ خود پر غور کرنے کے لیے آمادہ ہوسکیں۔
خلاصہ: قولِ بلیغ کا استعمال ہر اس موقع پر ضروری ہے جب سامعین کے دلوں پر اثر ڈالنا مقصود ہو۔ اسی لیے فصاحت و بلاغت کو خطابت کا ایک لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ اصول بھی معروف ہے کہ لوگوں سے ان کے فہم و فراست کے مطابق بات کی جائے۔ مخاطبین اگر اہل علم ہوں تو ان کے روبرو عامیانہ گفتگو ناکافی ہوگی۔ ان کے روبرو علمی گفتگو ہی قولِ بلیغ ہی ہوگا۔