سال نو کا جشن اورمسلمان

243

دنیا کے تمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں۔ ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے، جن سے نیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے؛ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنے کی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل کردی جاتی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی اور مہذب ہوتی گئی انسانوں نے کلچر اور آرٹ کے نام پر نئے جشن اور تہوار وضع کیے انھیں میں سے ایک نئے سال کا جشن ہے۔

نئے سال کا جشن عیسائیوں کا ایجاد کیا ہوا ہے، عیسائیوں میں قدیم زمانے سے نئے سال کے موقع پر جشن منانے کی روایت چلتی آرہی ہے، اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کے عقیدے کے مطابق 25 دسمبر کو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اسی کی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے۔
نئے سال کے جشن میں پورے ملک کو رنگ برنگی لائٹوں اور قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور 31 دسمبر کی رات میں 12 بجنے کا انتظار کیا جاتاہے اور 12 بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے، کیک کاٹا جاتا ہے، ہر طرف ہیپی نیو ائیر کی صدا گونجتی ہے، آتش بازیاں کی جاتی ہیں اور مختلف تفریحی پروگرام رکھے جاتے ہیں، اور ان کے نزدیک یہ تفریح صرف دو چیزوں سے ممکن ہے اوّل شراب دوسرے عورت۔
آج ان عیسائیوں کی طر ح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتظر رہتے ہیں اور 31 دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے، ان مسلمانوں نے اپنی اقدارو روایات کو کمتر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کر دیا ہے؛ جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا اپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریمؐ کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے یہی اسلامی کلینڈر ہے؛ لیکن افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں ہوپاتا۔

آج مسلمان نئے سال کی آمد پر جشن مناتا ہے، کیا اس کو یہ معلوم نہیں کہ اس نئے سال کی آمد پر اس کی زندگی کا ایک برس کم ہوگیا ہے، زندگی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ایک بیش قیمتی نعمت ہے اور نعمت کے زائل یا کم ہونے پر جشن نہیں منایا جاتا بلکہ افسوس کیا جاتا ہے۔
گزرا ہوا سال تلخ تجربات، حسیں یادیں، خوشگوار واقعات اور غم و الم کے حادثات چھوڑ کر رخصت ہوجاتا ہے اور انسان کو زندگی کی بے ثباتی اور نا پائیداری کا پیغام دے کر الوداع کہتا ہے۔ سال ختم ہوتا ہے تو حیات مستعار کی بہاریں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور انسان اپنی مقررہ مدت زیست کی تکمیل کی طرف رواں دواں ہوتا رہتا ہے۔ اسی کو شاعر نے کہا ہے ؎
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گِردوں نے گھڑی عمر کی ایک اور گھٹادی

سیدنا عبد اللہ ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں کسی چیز پر اتنا نادم اور شرمندہ نہیں ہوا جتنا کہ ایسے دن کے گزرنے پر جس کا سورج غروب ہوگیا جس میں میرا ایک دن کم ہوگیا اور اس میں میرے عمل میں اضافہ نہ ہوسکا۔ (قیمۃ الزمن عند العلماء)
حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ: اے ابن آدم! تو ایام ہی کا مجموعہ ہے، جب ایک دن گزرگیا تو یوں سمجھ تیرا ایک حصہ بھی گزرگیا۔ (حوالہ بالا)
یہ عمر اور زندگی جو ہم کو عطا ہوئی ہے وہ صرف آخرت کی ابدی زندگی کی تیاری کی خاطر عطا ہوئی ہے کہ ہم اس کے ذریعے آنے والی زندگی کو بہتر بناسکیں اور اپنے اعمال کو اچھا بناسکیں۔
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایام تمہاری عمروں کے صحیفے ہیں، اچھے اعمال سے ان کو دوام بخشو۔
نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ وہ فضول چیزوں سے بچے‘‘۔ (ترمذی)

یہ مختلف طر ح کے جشن‘ یہود ونصاری اور دوسری قوموں میں منائے جاتے ہیں۔ جیسے: مدرز ڈے، فادرز ڈے، ویلنٹائن ڈے، چلڈرنز ڈے اور ٹیچرس ڈے وغیرہ۔ اس لیے کہ ان کے یہاں رشتوں میں دکھاوا ہوتا ہے۔ ماں باپ کو الگ رکھا جاتا ہے، اولاد کو بالغ ہوتے ہی گھر سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی خاندانی نظام نہیں ہوتا؛ اس لیے انہوں نے ان سب کے لیے الگ الگ دن متعین کر رکھے ہیں جن میں ان تمام رشتوں کا دکھلاوا ہوسکے۔ مگر ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے اسلام نے سب کے حقوق مقرر کردیے ہیں اور پورا ایک خاندانی نظام موجود ہے، اس لیے نہ ہمیں ان دکھلاووں کی ضرورت ہے اور نہ مختلف طرح طے ڈے منانے کی۔ بلکہ مسلمانوں کو اس سے بچنے کی سخت ضرورت ہے، تاکہ دوسری قوموں کی مشابہت سے بچا جاسکے۔ اس لیے کہ ہمارے آقا ومولیؐ نے ہم کو غیروں کی اتباع اور مشابہت اختیار کرنے سے بچنے کا حکم دیا ہے۔ ’’جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انھیں میں سے ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
اب سوال یہ ہے کہ اس موقع پر مسلمانوں کو کیا رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو قرآن و احادیث کی روشنی میں صحیح ہو؟

نئے سال سے متعلق کسی عمل کو تلاش کرنے کی کوشش کی تو قرون اولیٰ کا کو ئی اور عمل تو مل نہ سکا؛ البتہ بعض کتب حدیث میں یہ روایت نگاہوں سے گزری کہ جب نیا مہینہ یا نئے سال کا پہلا مہینہ شروع ہوتا تو اصحاب رسولؐ ایک دوسرے کو یہ دعا سکھاتے اور بتا تھے:
’’اللّٰھْمَّ ادخِلہْ عَلَینَا بِالامنِ وَالایمَانِ، وَالسَّلَامَۃِ وَالاسلامِ، وَرِضوَانٍ مِّنَ الرَّحمٰنِ وَجِوَاز ٍمِّنَ الشَّیطَانِ‘‘ (المعجم الاوسط للطبرانی)
ترجمہ: ’’اے اللہ! اس نئے سال کو ہمارے اوپر امن وایمان، سلامتی و اسلام اور اپنی رضامندی؛ نیز شیطان سے پناہ کے ساتھ داخل فرما‘‘۔
اس دعا کو پڑھنا چاہیے؛ نیز اس وقت مسلمانوں کو دو کام خصوصاً کر نے چاہییں یا دوسرے الفاظ میں کہ لیجیے کہ نیا سال ہمیں خاص طور پر دو باتوں کی طرف متوجہ کرتا ہے: 1۔ماضی کا احتساب، 2۔آئندہ کا لائحہ عمل۔

ماضی کا احتساب
نیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟
ہمیں عبادات، معاملات، اعمال، حلال و حرام، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں اپنی زندگی کا محاسبہ کرکے دیکھنا چاہیے کہ ہم سے کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں؛ اس لیے کہ انسان دوسروں کی نظروں سے تو اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو چھپا سکتا ہے۔ لیکن خود کی نظروں سے نہیں بچ سکتا۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’تم خود اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے‘‘۔ (ترمذی)

آئندہ کا لائحہ عمل
اپنی خود احتسابی اور جائزے کے بعد اس کے تجربات کی روشنی میں بہترین مستقبل کی تعمیر اور تشکیل کے منصوبے میں منہمک ہونا ہوگا کہ کیا ہماری کمزوریاں رہی ہیں اور ان کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے؟ دور نہ سہی تو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟
انسان غلطی کا پتلا ہے اس سے غلطیاں تو ہوں گی ہی، کسی غلطی کا ارتکاب تو برا ہے ہی، اس سے بھی زیادہ برا یہ ہے کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور اسی کا ارتکاب کیا جاتا رہے۔
یہ منصوبہ بندی دینی اور دنیوی‘ دونوں معاملات میں ہو جیسا کہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ کا ارشاد ہے: ’’پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جان لو: 1۔اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے 2۔اپنی صحت و تندرستی کو بیماری سے پہلے 3۔اپنی مالداری کو فقروفاقے سے پہلے 4۔اپنے خالی اوقات کو مشغولیت سے پہلے 5۔اپنی زندگی کو موت سے پہلے۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
آخرت کی زندگی کی کامیابی اور ناکامی کا دارومدار اسی دنیا کے اعمال پر منحصر ہے۔ جیساکہ ارشاد ربانی ہے: ’’اور ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی، اور بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی، پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا‘‘۔ (سورۂ نجم، 40-41)

خلاصہ یہ ہے کہ ہر نیا سال خوشی کے بجائے ایک حقیقی انسان کو بے چین کردیتا ہے؛ اس لیے کہ اس کو اس بات کا احساس ہوتا ہے میری عمر رفتہ رفتہ کم ہورہی ہے اور برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ وہ کس بات پر خوشی منائے؟ بلکہ اس سے پہلے کہ زندگی کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہوجائے کچھ کر لینے کی تمنا اس کو بے قرار کردیتی ہے اس کے پاس وقت کم اور کام زیادہ ہوتا ہے۔
ہمارے لیے نیا سال وقتی لذت یا خوشی کا وقت نہیں؛ بلکہ گزرتے ہوئے وقت کی قدر کرتے ہوئے آنے والے لمحا تِ زندگی کا صحیح استعمال کرنے کے عزم و ارادے کا موقع ہے اور از سر نو عزائم کو بلند کرنے اور حوصلوں کو پروان چڑھانے کا وقت ہے۔

ساتھ ساتھ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو ایک اہم امر کی طرف بھی متوجہ کردیا جائے کہ مسلمانوں کا نیا سال جنوری سے نہیں؛ بلکہ محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جو ہو چکا ہے اور ہم میں سے اکثر کو اس کا علم بھی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قمری اور ہجری سال کی حفاظت کریں اور اپنے امور اسی تاریخ سے انجام دیں؛ اس لیے کہ ہماری تاریخ یہی ہے؛ چونکہ ہر قوم اپنی تاریخ کو کسی خاص واقعے سے مقرر کرتی ہے؛ اس لیے مسلمانوں نے اپنی تاریخ کو خلیفۂ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کے دورِ خلافت میں سیدنا علی المرتضیؓ کے مشورے سے واقعۂ ہجرت سے مقرر کیا۔

ہمیں ہجری سن دوسرے مروجہ سنین سے بہت سی باتوں میں منفرد نظر آتا ہے۔ ہجری سال کی ابتدا چاند سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑاگیا، تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں؛ نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے بھی چاند دیکھ کر اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انھیں کسی طرح کی کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے اور نہ کسی مادی سبب کی احتیاج ہے۔ اسلام کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے او رایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصوصیات کی حصانت و حمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے بدلتے موسم میں نہ آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم ماہ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لیے تنگی و سختی میں پڑجاتے۔ پس اسلام کی مساوات ِجہاں گیری کا مقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو غیروں کی مشابہت سے بچائے اور آقائے نامدار جناب محمد مصطفیؐ کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین