ہم سا ظالم دنیا میں کوئی نہیں

271

صاحبو! کیا غضب ہے جنوری کی سہانی سردیوں کی آمد آمد ہے کہیں مجید امجد کی ’’پھولوں کی پلٹن‘‘ کا ذکر نہیں۔ آئیے اس پر تاثیر نظم کی اور سے کچھ مناظر کا مشاہدہ کرتے ہیں۔

آج تم ان گلیوں کے اکھڑے اکھڑے فرشوں پر چلتے ہو
بچوآئو تمہیں سنائیںگزرے ہوئے برسوں کی سہانی جنوریوں کی کہانی
تب یہ فرش نئے تھے
صبح کو لمبے لمبے اوورکوٹ پہن کر لوگ گلی میں ٹہلنے آتے
ان کے پراٹھوں جیسے چہرے ہماری جانب جھکتے
لیکن ہم تو باتیںکرتے رہتے اور چلتے رہتے
پھر وہ ٹہلتے ٹہلتے ہمارے پاس آجاتے
بڑے تصنع سے ہنستے اور کہتے
ننھو سردی تمہیں نہیں لگتی کیا
ہم سب بھرے بھرے جزدان سنبھالے
لوحیں ہاتھوں میں لٹکائے
بنا بٹنوں کے گریبانوں کے پلو ادھڑے کاجوں میں اٹکاتے
تیز ہوائوں کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں میں بھرکر
چلتے چلتے تن کے کہتے ’’نہیں تو، کیسی سردی، ہم کو نہیں لگتی‘‘
بچو ہم ان اینٹوںکے ہم عمر ہیں جن پر تم چلتے ہو
صبح کی ٹھنڈی دھوپ میں بہتی آج اک اک صنف کی وردی
ایک نئی تقدیر کا پہناوا ہے
اجلے اجلے پھولوں کی پلٹن میں چلنے والو
تمہیں خبر ہے اس فٹ پاتھ سے تم کو دیکھنے والے اب وہ لوگ ہیں
جن کا بچپن ان خوابوں میں گزرا تھا جو آج تمہاری زندگیاں ہیں

نماز فجر سے واپسی پر پھولوں کی پلٹن کو سمیٹنے آتی جاتی اسکول وینز کا اک اپنا سماں ہے۔ کیا ہی دلربا منظر۔ لگتا ہے چاندنی ابھی رخصت نہیں ہوئی۔ جابجا اچھلتے کودتے اسکول جانے کے منتظر تارے، اجلے اجلے، نکھرے نکھرے، جگمگ جگمگ۔ والدین کی انگلی پکڑے، ان کے ساتھ کھڑے۔ ہزاروں اسکول وینز کے ڈرائیورز کی روزی کا ذریعہ۔ بعض بچوں کی آنکھوں میں ابھی نیند کا خمار جاگ رہا ہے لیکن اسکول وین کے ہارن کی آواز سن کر ان کے پائوں میں اسپرنگ لگ جاتے ہیں اور وہ بیگ سنبھالتے اچھلتے کودتے وین میں سوار ہوجاتے ہیں والدین کو ہاتھ ہلاتے ہوئے۔ اس وین کے پیچھے رکتی ایک دوسری وین جیسے ہی ہارن بجاتی ہے ایک کھڑکی کے پٹ کھلتے ہیں اور لجلجاتی ہوئی آواز آتی ہے ’’ڈرائیور ایک منٹ، بچے بس آتے ہیں‘‘۔ یہ بچے اس تجارت کا خام مال ہیں جسے حصول تعلیم کہا جاتا ہے۔ طبقاتی تعلیم۔ ایسے میں ہی کچھ بچے بس اسٹاپوں پر بسوں اور ویگنوں کے منتظر ہوتے ہیں اور بھری ہوئی گاڑیوں میں لٹکتے ہوئے بصد مشکل اسکول پہنچتے ہیں۔ بہت سے بچے بستے سنبھالے تھکے قدموں پیدل اپنے اسکولوں کی طرف رواں ہوتے۔ کچھ بچے اپنی کاروں کی پچھلی نشستوں پر سوتے جاگتے اسکول پہنچتے ہیں۔ دوڑتی بھاگتی اس پھولوں کی پلٹن کا اسکول میں داخل ہونا دنیا کا حسین منظر ہے۔

منہ اندھیرے پھولوں کی ایک پلٹن وہ ہے جو جنوری کی سردی میں بھی ننگے پائوں یا پھر پھٹی پرانی چپلیں پہنے، گندی شلوار قمیص میں ملبوس اپنے قد سے بڑے بورے اٹھائے کچرا چننے میں مصروف ہوتی ہے۔ نہ جانے کتنے ہفتے مہینے گزرے یہ نہائے نہیں، انہوں نے منہ نہیں دھویا۔ ایک طرف کتے ان پر بھونک رہے ہوتے ہیں اور دوسری طرف لوگ، جنہیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ یہ کچھ چرا نہ لیں۔ یہ بچے اسکول کے نام سے بھی آشنا نہیں۔ گندگی کے ڈھیروں پر بھوک مٹانے کے لیے یہ بچے گلے سڑے پھل کھارہے ہوتے ہیں۔ موسموں کے سرد وگرم کو برداشت کرتے یہ بچے دن بھر کچرا چننے کے بعد دکھوں کی یہ بوریاں کباڑخانوں میں فروخت کرکے اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں۔ حکومت، اپوزیشن، فلاحی تنظیموں اور سماج یہ پھولوں کی پلٹن کسی کا موضوع نہیں۔

علی الصباح دبلی پتلی، موسم کے ملبوسات سے بے نیا ز بہت سی عورتیں تیزی سے کوٹھیوں، بنگلوں اور متوسط طبقے کے خوشحال گھروں کی طرف تیزی سے چلتی نظر آتی ہیں۔ ان کے ساتھ پھولوں کی پلٹن کا ایک حصہ بھی ہوتا ہے جنہیں اپنی مائوں کے ساتھ مل کر دن بھر گھروں کا جھاڑو پوچا کرنا اور گندے سندے برتن دھونے ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر لڑ کیاں ہوتی ہیں۔ شدید سردی میں بھی ٹھنڈے پانی میں بھیگی کام کرتی ہوئی۔ بچپن کے لاڈ پیار اور بنیادی حقوق سے محروم۔
پھولوں کی ایک پلٹن وہ ہے جو ابھی گھروں میں پڑی سو رہی ہے۔ اٹھنے کے بعد انہیں ہوٹلوں، دکانوں اور گیراجوں کا رخ کرنا ہے۔ یہ بچے چھوٹے کہلاتے ہیں۔ استاد پہلے انہیں گالی بکتا ہے بعد میںکام کہتا ہے۔ کام سکھانے کے بہانے استاد کو ان بچوں پر ہر طرح کی مار پیٹ اور زیادتی کی اجازت ہے۔ یہ بچے مفت کے ملازم ہیں۔ ذرا ذرا سی غلطی پر استاد کے ہاتھ میں پیچ کس، پلاس جو ہوتا ہے انہیں کھینچ مارتا ہے۔ انہیں کہاں چوٹ لگی کہاں خون آیا یہ کوئی قابل ذکر بات نہیں۔ ہوٹلوں میں گندی صافی ہاتھوں میں لیے یہ میزوں کرسیوں کی صفائی کرتے، آرڈر لیتے، اور گندے برتن دھونے میں بارہ بارہ سولہ سولہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔ اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ ایندھن سے بھرنے کے لیے۔
پھولوں کی ایک پلٹن وہ ہے جسے صبح اٹھ کر کہیں نہیں جانا۔ ان کے والدین چھے مہینے سال کی تنخواہ وصول کرکے انہیں چوبیس گھنٹے کی غلامی کے لیے فروخت کرکے جاچکے۔ وڈیروں، زمینداروں، ججوں، وکیلوں، ڈاکٹروں اور معاشرے کے خوشحال لوگوں کے گھر ان کے جائے غلامی ہیں، عقوبت خانے۔ ان بچوں کے کوئی اوقات کار نہیں۔ دن کے بارہ گھنٹوں اور رات کسی بھی وقت نیند سے اٹھاکر انہیں کسی بھی کام کے لیے کہا جاسکتا ہے۔ انکار کا سوال ہی نہیں۔ یہ بچے بد ترین تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ معمولی سے نقصان پر انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ جب کبھی مارپیٹ کی اذیت ناکیوں سے کوئی بچہ یا بچی موت کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے تب کچھ دن میڈیا شور کرتا ہے اور پھر خاموش ہو جاتا ہے تب تک مظلوم بچوں کے والدین اور ظالموں کے درمیان کچھ نہ کچھ مک مکا بھی ہوجاتا ہے۔ بچوں کے معاملے میں ہم سا ظالم دنیا میں کوئی نہیں۔