پاکستان کو اگر بچانا ہے تو میڈ ان پاکستان کو بڑھانا ہوگا۔ اس کے لیے ملک میں شعور پیدا کرنا ہوگا۔ غیرت مند قومیں دنیا میں محنت کے بل پر اپنا نام پیدا کرتی ہیں۔ پاکستانی عوام دنیا میں سب سے زیادہ محنتی قوم ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں پاکستانی اپنی محنت کے بل پر موجود ہیں اور بیرون ملک محنتی پاکستانیوں کی وجہ سے آج پاکستان کی معیشت کو سہارا ہے۔ لیکن پاکستانی اشرافیہ نہ صرف ہڈ حرام ہے بلکہ وہ پاکستانی عوام کی کمائی پر عیش کر رہی ہے بلکہ اسے اپنے اللوں تللوں میں اُڑا رہی ہے۔ اپنے ملک میں بھی پاکستانی عوام جان توڑ محنت کرتے ہیں۔ لیکن نہ حکومت، نہ سرمایہ دار، نہ کارخانے دار، ان کو ان کی محنت کا اصل اجر، صلہ یا معاوضہ نہیں دیتا اس لیے وہ بیرون ملک جا کر اپنی محنت کا صلہ اور معاوضہ لیتے ہیں۔
پاکستان میں بڑے سرمایہ داروں نے سیاست پر قبضہ جما لیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ سرمایہ دار ایسی قانون سازی کر رہا ہے جس کے نتیجے میں صرف اسے ہی منافع حاصل ہوتا ہے اور ٹیکس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ اس طبقے نے ایک سازش کے تحت بجلی کی ترسیل اور تیاری کو نجی شعبے میں دے کر اپنے قبضے میں کر لیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں دنیا کی سب سے مہنگی بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اگرچہ پاکستان کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ دنیا کی سب سے سستی بجلی پیدا کر سکے۔ یعنی پاکستان اپنی ضروریات کی 75 فی صد بجلی پانی سے پیدا کر سکتا ہے اور باقی 25 فی صد بجلی ایٹمی توانائی سے حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ یہ بھی بجلی حاصل کرنے کا ایک سستا ذریعہ ہے۔ دوسری جانب سولر انرجی یا شمسی توانائی سے بھی اس وقت بجلی کی ضروریات پوری کی جا رہی ہیں۔ لیکن پاکستان کی معیشت کو اشرافیہ کی دیمک چاٹ رہی ہے جو پاکستان میں توانائی کے ذرائع کو مہنگا کرتی چلی جا رہی ہے تاکہ پاکستان کی گھریلو صنعت خاص طور پر نہ پنپ سکے اور عام صنعت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے۔ پاکستان کا عام آدمی خوشحال نہ ہو سکے پاکستان بھارت کے مقابلے میں نہ آسکے یہ سب کچھ دانستہ کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ وطن پاکستان سے کوئی سیاسی قیادت مخلص نہیں ہے سارے سیاستدان عوام کی توجہ ان معاملات سے ہٹانے پر محنت کرتے ہیں جو عوامی ضروریات اور مشکلات کے مسائل کے ہوتے ہیں ان جماعتوں میں چاہے وہ مذہبی سیاسی جماعتیں ہوں یا سیکولر سیاسی جماعتیں سب ہی اس بہتی گنگا میں ننگے ہو کر اشنان کر رہے ہیں۔ کرپشن کی اس گنگا کا پانی نہایت غلیظ اور میلا ہے، اب تو ہمیں اس سے بو بھی آنے لگی ہے یہ سیاست دان ہی ہیں جنہوں نے اپنے مفادات کی خاطر آئی پی پیز سے معاہدہ کیا اور یہ طے کیا کہ تم بجلی پیدا کرو یا نہ کرو ہم تمہیں تمہاری پیداواری گنجائش سے بھی زیادہ قیمت ادا کریں گے۔ دنیا بھر میں کسی چیز کی زیادہ خریداری پر اس چیز کی قیمت کم کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں بجلی کی زیادہ خریداری پر فی یونٹ بجلی کی قیمت بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں یہ بھی ظالمانہ قانون ہے کہ دن کے وقت بجلی کی قیمت کم ہے اور رات کے وقت بجلی کی قیمت زیادہ ہے۔ یہ سب استحصالی اور استعماری طبقے کی کارستانیاں ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان میں تیار کردہ مصنوعات کی قیمت عالمی منڈی میں کیسے مقابلہ کر سکے گی؟۔ پاکستان اور پاکستانیوں کو ترقی کرنا ہے تو اس استحصالی طبقے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ آپ یہ دیکھیے کہ پانچ سال کے لیے اقتدار میں آنے والے آئی پی پیز کے ساتھ 20 سال کا معاہدہ کرتے ہیں گویا یہ 20 سال تک ہمارے سروں پر مسلط رہیں گے۔ یہ ان کا اختیار ہی نہیں ہے یہ کام ناجائز ہے وہ صرف اپنی حکومت کی مدت کے اندر کسی معاہدے کی توثیق کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر یہ سارے معاہدے غیر اخلاقی غیر آئینی غیر قانونی اور انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور پاکستان کی سلامتی کے بھی خلاف ہیں۔ پاکستان میں بجلی کی تیاری اور ترسیل کا نظام ہمارا تو مطالبہ یہ ہے کہ دوبارہ حکومت پاکستان کو دیا جائے تاکہ پاکستان میں ترقی کا پہیہ چل سکے۔ یہ طے کر دیا جائے کہ کوئی تاجر کوئی صنعت کار کوئی سرمایہ دار جو بجلی یا توانائی کی کسی شعبے سے منسلک ہو وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں بن سکتا اور حکومت کے کسی منفعت بخش عہدے پر فائز بھی نہیں ہو سکتا۔ اس وقت کئی سیاستدان آئی پی پیز کے مالک ہیں تو وہ اپنے مفاد کے خلاف فیصلہ کیسے ہونے دیں گے؟۔ نیپرا، اوگرا جیسے ادارے غیر منتخب افراد کے ہاتھوں میں ہیں جو رشوت لے کر صرف بجلی کمپنیوں اور پٹرولیم کمپنیوں کے حق میں فیصلہ دیتے ہیں انہیں عوامی مفاد کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ آئی پی پیز کے معاملے میں مسلم لیگ نون، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے معاشی مفادات حکومتی عہدوں سے وابستہ ہیں۔ یہ گزارشات اس لیے ہیں کہ ان سیاست دانوں نے فوج کو کرپٹ کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب ملک میں فوجی فاؤنڈیشن کا ادارہ پاکستانی مصنوعات تیار کر رہا ہے تو یہ مہم چلائی جا رہی ہے کہ اس کا بائیکاٹ کرو۔ یہ سیاسی جماعتیں یہ مہم نہیں چلا رہی کہ پاکستانی مصنوعات کو تیار کرنے کے لیے بجلی سستی کرو۔ پاکستان میں ’’میڈ ان پاکستان‘‘ کا سیاست دانوں کے بعد سب سے بڑا دشمن بلڈر مافیا ہے جس نے پورے پاکستان کی زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دی ہیں لاہور اور کراچی سے زرعی زمینوں کا تقریباً خاتمہ ہو گیا ہے جہاں تازہ سبزیاں اور پھل پیداہوا کرتے تھے۔
آخر میں ’’میڈ ان پاکستان‘‘ کے سب سے بڑے دشمن ایف بی آر کا ذکر بھی بہت ضروری ہے اس کے لگائے گئے ٹیکسوں کی بھرمار نے بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کیا اور پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے رکاوٹیں ڈالیں اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان میں کوئی شے تیار نہ ہو سکے اور پاکستان غیر ملکی اشیاء کی منڈی بن جائے ان لوگوں نے ہر اس ادارے کو نقصان پہنچایا ہے جو پاکستان کی پہچان تھا چاہے وہ پی آئی اے ہو یا پاکستان اسٹیل ملز انہوں نے اسے نجی شعبے میں دینے کی کوشش کی کیونکہ یہ عوامی سرمائے سے چلنے والے منافع بخش ادارے تھے اور انہیں نجی شعبے میں دینے کے لیے ایک سازش کے تحت ان اداروں کو برباد اور تباہ کیا گیا۔ یہ سیاستدان دانستہ طور پر نجکاری کے نام پر ہر شعبے کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
ان لوگوں نے دانستہ تعلیم اور صحت کو نجی شعبے کے حوالے کیا اور دونوں کا بیڑا غرق کیا۔ اب ایک غریب آدمی نہ اپنا علاج کرا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اعلیٰ تعلیم کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ کیونکہ وہ اسپتال اور اسکول، کالج کی فیسیں ادا کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔ آج ہمارے نوجوان کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو جو نقصان پہنچے رہا ہے ، صدیوں تک اس کا ہم ازالہ نہیں کر پائیں گے۔ آج دنیا نالج بیسڈ اکنامی کے بل پر چل رہی ہے اور ایسے میں پاکستان کے لوگوں کو تعلیم سے دور کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ کیونکہ جب وہ تعلیم سے دور رہیں گے تو کوئی کام نہیں کر سکیں گے کسی کام کے قابل نہیں ہو سکیں گے اور ہنر مند پاکستانیوں کی کھیپ نہیں آسکے گی۔ پاکستانیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے پاکستان میں تعلیم کا ایسا نصاب تیار کیا گیا ہے جس سے محض کلرک اور غیر ہنر لوگ پیدا ہوں جو معاشرے میں کوئی اہم کردار ادا نہ کر سکیں۔
آئندہ کسی مضمون میں ہم ان دیگر اسباب پر بھی روشنی ڈالیں گے جو ’’میڈ ان پاکستان‘‘ کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔