مسلم دنیا اور اس کے غاصب جرنیل

523

عدالت عظمیٰ میں قتل کے ایک مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اطہر امن اللہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ جب تک ’’ریاستی ادارے‘‘ سیاسی انجینئرنگ کرتے رہیں گے تو ملک کا یہی حال ہوگا۔ اطہر من اللہ نے کہاکہ عدالت عظمیٰ بھی اتنا ہی سچ بولتی ہے جتنا کہ معاشرہ بولتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 40 سال کے بعد ایک وزیراعظم کے قتل کا اعتراف کیا گیا۔ وزیراعظم کے قتل سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے۔ کسی کو ذمے دار قرار دے کر سزا دی جانی چاہیے تھی، جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ریاست کی کیا بات کریں۔ تین وزیراعظم مار دیے گئے، ان وزرائے اعظم کے مقدمات کا کیا بنا، جسٹس ملک شہزاد نے ریمارکس دیے کہ جس ملک میں وزیراعظم کا یہ حال ہو وہاں عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ (روزنامہ جسارت 21 دسمبر 2024ء)

مسلم دنیا حقیقی معنوں میں امکانات کی دنیا تھی۔ اس دنیا کے پاس اسلام تھا جس نے آدھی سے زیادہ دنیاکو فتح کیا تھا۔ جس نے علوم و فنون کے دریا بہائے تھے، جس نے کردار و عمل کے تاج محل تخلیق کیے تھے، اسلام صرف ’’ماضی کی چیز‘‘ نہیں تھا۔ وہ ہر زمانے میں ایک زندہ قوت تھا، مگر مسلم دنیا کے بادشاہوں بالخصوص جرنیلوں اور ان کے پیدا کردہ سیاست دانوں نے اپنے ملکوںاور معاشروں میں کبھی اسلام کو موثر طاقت ہی نہیں بننے دیا۔ انہوں نے کبھی اسلامی ملکوں میں اسلامی جماعتوں کو ابھرنے اور اقتدار میں آنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ 1990ء کی دہائی میں الجزائر میں انتخابات ہوئے اور انتخابات کے ابتدائی مرحلے میں اسلامی فرنٹ نے دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرلی۔ امکان تھا کہ انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اسلامی فرنٹ زیادہ بڑی عوامی تائید حاصل کرے گا مگر الجزائر کے جرنیلوں نے انتخابات کے دوسرے مرحلے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ الجزائر کے غاصب جرنیل اسلامی فرنٹ پر بھوکے کتوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ اسلامی فرنٹ کو غیر معمولی عوامی مقبولیت حاصل تھی، چنانچہ اسلامی فرنٹ نے فوج کی مسلح مزاحمت شروع کردی۔ اس کے نتیجے میں پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا اور یہ خانہ جنگی دس برسوں میں دس لاکھ لوگوںکو نگل گئی۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ الجزائر میں اسلامی قوتوں کے سیاسی ابھار کے امکانات معدوم ہوگئے۔ مصر، سعودی عرب کے بعد عرب دنیا کا اہم ترین ملک ہے، مصر میں اخوان نے خالص جمہوری جدوجہد کے ذریعے اقتدار حاصل کیا لیکن مصر کے جرنیلوں نے پہلے دن سے اخوان کی حکومت اور اس کے صدر مرسی کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ انہوں نے ملک میں بعض اشیا کی قلت پیدا کردی اور بالآخر جنرل سیسی نے طاقت کے بل پر اقتدار اخوان سے چھین لیا۔ اخوان نے پرامن مزاحمت کی راہ اختیار کی لیکن جنرل سیسی اور مصر کی فوج اخوان پر بھیڑیوں کی طرح ٹوٹ پڑی۔ اس نے ایک ڈیڑھ ماہ میں 8 ہزار سے زیادہ اخوانیوں کو شہید کردیا۔ 20 ہزار سے زیادہ افراد زخمی ہوئے، اس سے بھی زیادہ لوگ جیلوں میں ٹھونس دیے گئے، ہم نے مصری فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے اخوانیوںکی تصاویر دیکھی ہیں، ان میں سے اکثر کو سر اور سینے پر گولیاں ماری گئی تھیں۔ ترکی میں نجم الدین اربکان عوامی تائید سے اقتدار میں آئے تھے مگر ترکی کے جرنیلوں نے ان کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ نہ چلنے دیا۔ نجم الدین اربکان بدعنوان نہیں تھے، نااہل نہیں تھے، امریکا یا یورپ کے ایجنٹ نہیں تھے، ان کا واحد جرم ان کی اسلام پسندی تھا۔ چنانچہ انہیں چلنے نہیں دیا گیا۔ رجب طیب اردوان دو مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ اسلام اور سیکولر ازم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اس کے باوجود ترکی کے جرنیل انہیں مغرب کی طرح چھپا ہوا ’’اسلامسٹ‘‘ سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے خلاف بھی فوجی بغاوت ہوئی، اس وقت رجب طیب اردوان ملک میں بھی موجود نہیں تھے چنانچہ انہوں نے موبائل قوت کے ذریعے فوج کی مزاحمت کا پیغام دیا اور ان کے پیغام پر ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، انہوں نے سروں پر منڈلاتے ہوئے گن شپ ہیلی کاپٹرز کی فائرنگ کی پروا نہیں کی، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ طیب اردوان کے خلاف فوجی بغاوت ناکام ہوگئی۔

پاکستان 20 ویں صدی میں اسلام کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے قیام کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ برصغیر کے مسلمان فرقوں اور مسلکوں میں بٹے ہوئے تھے۔ لسانی اختلافات انہیں ایک دوسرے سے دور کیے ہوئے تھے، دوسری طرف انگریز وقت کی واحد سپر پاور تھے اور وہ پاکستان نہیں چاہتے تھے، تیسری طرف ہندو اکثریت پاکستان کے سخت خلاف تھی۔ چوتھی طرف مسلمانوں کے پاس محمد علی جناح کے سوا کوئی بڑا رہنما نہیں تھا۔ مگر چونکہ پاکستان پر اسلام کا سایہ تھا اس لیے اس اسلام نے برصغیر کے مسلمانوں کی بھیڑ کو دیکھتے ہی دیکھتے ایک قوم بنادیا۔ اسلام نے محمد علی جناح کو قائداعظم بناکر کھڑا کردیا، اسلام نے پاکستان کے خواب کو صرف سات سال میں خواب سے حقیقت بنادیا۔ بلاشبہ قائداعظم قیام پاکستان کے بعد دس سال بھی زندہ رہ جاتے تو پاکستان آج دنیا کی دس بڑی طاقتوں میں سے ایک طاقت اور عالم اسلام کا واحد قائد ہوتا۔ مگر قائداعظم قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی انتقال کر گئے۔ چند سال بعد لیاقت علی خان شہید کردیے گئے۔ اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہوا کہ جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر مارشل لا مسلط کردیا۔

اس مارشل لا کے تسلط کا کوئی مذہبی، تاریخی، تہذیبی، سیاسی اور عوامی جواز نہیں تھا۔ جنرل ایوب نے محض فوج کی طاقت کی بنیاد پر قوم کو اپنا غلام بنالیا تھا۔ جنرل ایوب کے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اسلام کو پس منظر میں دھکیل دیا اور انہوں نے سیکولر ازم کو فروغ دینا شروع کردیا۔ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا، انہوں نے 1956ء کے دستور کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا، انہوں نے ذرائع ابلاغ کی آزادی چھین لی، انہوں نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط کرکے پاکستان کو امریکا کی کالونی بنادیا، انہوں نے طلبہ کی سیاست پر پابندی لگادی، انہوں نے عدالتوں کو اپنا آلٰہ کار بنالیا۔ ان کی جرأت اتنی بڑھی کہ انہوں نے ملک کے اخبارات میں آدھے آدھے صفحے کے ایسے اشتہارات شائع کرائے جن میں مادر ملت فاطمہ جناح کو بھارتی ایجنٹ قرار دیا گیا تھا۔ جنرل ایوب گئے تو ان کی جگہ جنرل یحییٰ آگئے، ان کا دور اقتدار آدھا پاکستان کھا گیا، جنرل یحییٰ ہٹے تو جنرل ایوب کے پیدا کردہ ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پاکستان جرنیلوں کے غاصبانہ قبضے کا شکار ہے۔

اس غاصبانہ قبضے کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک کا آئین، آئین نہیں ہے، جرنیلوں کی خواہشات اور ان کے مفادات ملک کا آئین ہیں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ جرنیلوں کے انگوٹھے کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ 2024ء میں انتخابات ہوئے اور عوام کی اکثریت نے پی ٹی آئی کے حق میں رائے دی مگر جرنیلوں نے ملک پر شہباز شریف کو مسلط کردیا۔ ملک کے ذرائع ابلاغ صرف وہ بات لکھتے اور نشر کرتے ہیں جو جرنیلوں کی مرضی کے مطابق ہوتی ہے۔ پاکستانی جمہوریت ایک دھوکا ہے، انتخابی عمل ایک فراڈ ہے، پاکستان کی سیاسی جماعتیں جرنیلوں کے ایجنٹوں سے بھری ہوئی ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ایک مقامی معاملہ ہوتے ہیں مگر جرنیل بلدیاتی انتخابات تک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں عوام کی اکثریت نے جماعت اسلامی کے حق میں رائے دے دی تھی، مگر ملک کو سیاسی انجینئرنگ کا شکار کرنے والی ایجنسیوں نے تحریک انصاف کے تیس چالیس نمائندوں کو توڑ کر کراچی پر پیپلزپارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ اسی طرح جرنیلوں نے کراچی میں بلدیاتی سطح پر جماعت اسلامی کا اقتدار ہڑپ کرکے پیپلزپارٹی جیسی بدعنوان اور نااہل پارٹی کو ساڑھے تین کروڑ لوگوں پر مسلط کرایا۔

یہ صورت حال مذہبی، تاریخی، تہذیبی، اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے شرم ناک ہے۔ جرنیل اگر ملک کے آئین کو نہیں مانتے تو وہ آئین کو ختم کردیں اور اعلان کردیں گے کہ اب آئندہ سے جرنیلوں کی خواہشات اور مفادات ہی ملک کا آئین ہوں گے۔ جرنیل اعلان کردیں کہ پاکستان میںکوئی جمہوریت ہوگی نہ کسی بھی سطح کے انتخابات ہوں گے۔ جرنیلوں کی خواہشات اور مفادات ہی جمہوریت ہیں اور وہی انتخابی عمل۔ جرنیلوں کو چاہیے کہ وہ ملک میں ہر سطح کی عدلیہ کو بھی ختم کردیں اور اعلان کردیں کہ ملک میں صرف فوجی عدالتیں ہوں گی۔ جرنیلوں پر فرض ہے کہ وہ ذرائع ابلاغ اور سیاسی جماعتوں کے خاتمے کا بھی اعلان کردیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ملک پر جرنیلوں کا غاصبانہ قبضہ بھٹو صاحب کی اصطلاح میں Full، Totat اور Complete نظر آئے اور ایسا کیوں نہ ہو آخر پاکستان جرنیلوں کی بیویوں کو جہیز میں ملا تھا۔