زندگی کا فیضان دل سے پروان چڑھتا ہے، پرورش پاتا ہے، پھلتا پھولتا ہے اور بارآور ہوتا ہے۔ حقیقی زندہ انسان کا دل بیدار ہوتا ہے اور
یہی معاملہ اقوام کا بھی ہے۔ اقوام میں زندگی کی لہریں دوڑ رہی ہوتی ہیں اگر اس کے افراد میں دل کی تابندگی ماند نہ پڑے۔
اقبال کے نزدیک کوشش و جدوجہد کے چشمے دل بیدار سے پھوٹتے ہیں۔ اگر دل میں سوزو ساز ختم ہو جائے تو پھر جدوجہد بھی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ دل بیدار استعارہ ہے نیکی کا، جدوجہد کا، امید کا، احساس انسانیت کا، ظلم کے خلاف ڈٹ جانے اور رضائے الٰہی کے لیے اپنی قیمتی ترین متاع کو لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے خالق کے لیے قربان کرنے کا۔
16 دسمبر بچپن سے ہی بوجھل اور مرجھا دینے والا دن رہا ہے کہ اس دن مردہ قلوب نے اپنے بیدار دل بھائیوں کو خود سے ناراض کردیا۔ وہ بنگالی جوکہ نظریہ پاکستان کے علم بردار تھے قریب نصف صدی پہلے ہم سے کیونکر الگ ہوگئے؟ کیسے ایک نظریہ، فکر اور سوچ پہ حاصل کیا گیا ملک دو ٹکڑوں میں بٹ گیا؟۔۔۔ ایک بنگلا دیش بن گیا جبکہ دوسرا آدھا پاکستان۔۔۔ دسمبر کی یخ بستہ راتیں اور ٹھٹھرتے دنوں میں جب بھی یہ دن آتا ہے تو دل کی حرارت اس قدر افزوں ہوجاتی ہے کہ سردی کا احساس یکسر ختم ہوجاتا ہے اور آنسوؤں کا ایک سیل رواں جاری ہوجاتا ہے۔
آج بھی خیالات کی پر پیچ وادیوں میں محو سفر تھا۔ غم، دکھ اور آنسو تھے کہ بڑھتے چلے جارہے تھے۔ وطن عزیز جگہ جگہ سے زخم خوردہ ہے اس کا غم الگ سے بھاری پتھر کی طرح سینے پہ رکھا ہوا تھا۔ ایسے میں 16 دسمبر آن پہنچا۔
ذہن میں کانگریسی ملاؤں اور اندرا گاندھی کی شاطر آوازیں قہقہوں کی صورت میں گونج رہی تھیں۔ ہم نے نظریہ پاکستان کو بنگال میں دفن کردیا۔ اقوام فقط سرحدات سے بنتی ہیں۔ اوطان ہی کسی قوم کی تشکیل میں فیصلہ کن کردار اداکرتے ہیں۔ یہ آوازیں اور قہقہے بتدریج بلند ہوتے گئے اور نعروں کی شکل اختیار کر گئے۔
متحدہ ہندوستان… زندہ باد
دو قومی نظریہ… مردہ باد
پاکستان… مردہ باد
ہندوستان… زندہ باد
ان آوازوں اور نعروں کو سن کے میرے جذبات میں طوفان برپا ہوا اور اور میں نے اپنے ملک کے سیاستدانوں اور جرنیلوں کی طرف امید کی نظروں سے دیکھا۔ ان کی زیر لب مسکراہٹوں نے مجھے میرے سارے سوالات کے جوابات دیدیے۔ ان کے اشاروں سے یہ اخذ کرنا مشکل نہ ہوا کہ ہم جاگیر داروں، سرمایہ داروں کو کسی نظریے اور جغرافیے کی پروا نہیں۔ ہمارا نظریہ منافع اور مارکیٹ ہیں۔ بے بسی اور ناامیدی کی کیفیات نے سر اٹھالیے اور ایسے میں خدا بیزار تہذیب کے دانشوروں نے طنزیہ انداز میں مجھے دیوانے کا خطاب دیتے ہوئے کہا کہ سیکولرازم اور مغربی جمہوریت ہی ہماری اصل ہیں۔ تم احمقوں کی جنت کے باسی ہو اور تمہیں تاریخ کی غلط تعبیر بتائی گئی ہے۔
میں جو بچپن سے حسین تمنائیں سجائے بیٹھا تھا اور سہانے خوابوں کی تعبیر میں دردر کی خاک چھانتا پھر رہا تھا ان کی باتوں سے ٹھٹھکا۔
مجھے بنگالی بھائیوں کی یاد شدت سے آنے لگی۔ ابھی مایوسی کی فضا نے مکمل اندھیرا پیدا نہیں کیا تھا کہ دور سے مجھے ایک قافلہ آتا دکھائی دیا۔ اس قافلے کے گرد روشنی کا ہالہ تھا۔ وہ میرے قریب پہنچا تو میں نے پہنچانتے ہوئے استفسار کیا۔ عبدالمالک تم کہاں آگئے۔ مردہ دلوں کی بستی میں زندوں کا کیا کام؟ تو عبدالمالک نے میرے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔ مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا… مردہ دلوں کی بستی میں ہی تو زندوں کا کام بڑھ جاتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کے مجھے وہ ڈھاکا کی سڑکوں پہ لے آیا…
تاحد نگاہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی قطاریں عبدالمالک کے استقبال کے لیے موجود تھیں۔ عبد المالک کے ہمراہ البدر اور الشمس کے ہزاروں شہید جوان بھی تھے۔ ملا عبدالقادر اور پروفیسر غلام اعظم کے نورانی چہروں کے ساتھ ہم آگے بڑھتے چلے گئے۔
نوجوان محبت، و ارفتگی اور جوش سے عبد المالک کے قافلے کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ عبدالمالک اور البدر و الشمس کے نوجوانوں کا شکریہ ادا ر کر رہے تھے۔ انہیں اپنے بلند نعروں سے یہ پیغام دے رہے تھے کہ بنگال آج بھی دو قومی نظریہ کا گڑھ ہے۔ آج بھی انسانیت کے لیے امید کی کرن ہے۔
بنگالی نوجوانوں نے البدر اور الشمس کے شہدا کے نعرے کو اپنی تحریک کا نعرہ بنالیا تھا۔ ان کی زبان پہ تھا۔
’’تمی کے۔ ہمی کے… رجاکار۔ رجاکار‘‘
عبدالمالک نے نم آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ میں نے ان کی آنکھوں میں لکھے سارے پیغامات پڑھ لیے… ان میں امید کے ساتھ ساتھ یہ لکھا تھا۔
مایوس مت ہو… پگلے کبھی دو قومی نظریہ بھی مرسکتا ہے؟ دفن ہوسکتا ہے؟ یہ ہابیل و قابیل سے شروع ہوا تھا اور قیامت تک پوری چمک و دمک کے ساتھ تابندہ و پائندہ رہے گا۔ عبدالمالک کی حوصلہ افزاء اور خوش کن باتوں نے دل میں بجھتی امید کی چنگاری کو الاؤ میں بدل دیا اور میں پوری قوت سے پکا ر اٹھا۔
’’تمی کے ہمی کے۔ رجاکار۔ رجاکار‘‘