سندھ کی سب سے بڑی روحانی گدی کے حامل پیر صاحب پگاڑو نے دورہ سندھ بلوچستان کے دورانیہ میں انکشاف کیا کہ پی پی پی کو سندھ حکومت اس سودے بازی کے نتیجے میں دی گئی ہے کہ وہ دریائے سندھ میں سے 6 کینال نکالنے کی اجازت دے گی اور اس پر عمل کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے صدر مملکت ہونے کے ناتے ان کینالوں کی منظوری دے دی۔ ان کینالوں کی کیا تک ہے کہ سندھ کی آباد زمینوں کو برباد کرکے چولستان کی بے آب گیا زمینوں کو آباد کیا جائے۔ ان کینالوں سے سندھ سے زیادہ بلوچستان متاثر ہوگا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کے اور ہمارے ووٹ سے حکومت بنتی ہے نہ ٹوٹتی ہے ہم ’’الف‘‘ کو ووٹ دیتے ہیں اور حکومت میں ’’ب‘‘ آجاتا ہے۔ ہمیں تو پتا تھا مگر اب دنیا کو بھی علم ہوگیا ہے کہ پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتے ہیں۔ حکومت میں بیٹھے لوگ ایک دوسرے سے جھوٹ بول رہے ہیں یہ حکومت چل نہیں رہی ہے جھوٹ پر قائم ہے، ہر دکھ کے موقع پر فوج کام آتی ہے، سیلاب کے سیزن میں لوگ پانی پر لڑرہے ہیں بعد میں کیا حال ہوگا۔ پیر صاحب پگاڑو نے فارم 47 کی بنیاد پر قائم حکومت کو جھوٹ قرار دے کر پانی کی قلت کے مسئلے کو 1947ء جیسی انارکی والی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا کہ خشک سالی سے ’’لڈپلان‘‘ ہوگی تو پھر صورت حال شاید سنبھالے نہ سنبھلے۔
پیر صاحب پگاڑو کا انتباہ خطرے کی گھنٹی ہے، پانی کے مسئلے پر عجیب صورت حال ہے کہ پی پی پی کے قائد آصف علی زرداری جنہوں نے اس فیصلے کی منظوری دی اُن کی پارٹی بھی سندھ میں سراپا احتجاج ہے اور وہ چپ سادھے صورت حال کو مانیٹر کررہے ہیں وہ کہہ سکیں کہ انہوں نے تو 6 کینالوں کی اجازت دے دی مگر سندھ کے عوام اور پارٹی کے اکابرین مان کر نہیں دے رہے ہیں وہ مجبور ہیں کیا کریں۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ پی پی پی دوہرا کردار ادا کررہی ہے وہ مقتدرہ کے ساتھ مل کر سندھ کے مقدر سے کھیل رہی ہے اور مگرمچھ کے آنسو بہا کر تعزیت بھی وصول کررہی ہے۔ دریائے سندھ میں 6کینال نکالنے والے پروگرام کو صوبہ سندھ میں شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات سے تعبیر بھی کیا جارہا ہے۔ جو نفرتوں کو پروان چڑھانے کا بڑا ذریعہ بن رہا ہے۔ اور قوم پرست طبقہ اس سے فائدہ اُسی طرح اٹھانے کے لیے سندھ کے عوام کے جذبات بالخصوص زمیندار طبقہ کو جو صوبے کی ساٹھ فی صد سے زائد آبادی پر مشتمل ہے کو بھڑکانے کا کام پر جت گیا ہے۔ بات تو اصولی ہے کہ ایک طبقہ کو پیاس سے مار کر دوسرے طبقے کو مالی منفعت خاطر سیراب کرنا انسانی، اخلاقی اور اصولوں کے خلاف ہے۔
اصول پسند جماعت؛ جماعت اسلامی بھی اس منصوبے کے خلاف میدان عمل میں ہے، اُس نے سندھ کے امیر کاشف شیخ کی قیادت میں ایک لانگ مارچ کیا۔ اور کہا کہ اس سلسلے میں وصولی کے بجائے اصولی کا فلسفہ اپنایا جائے۔ صوبہ بلوچستان اور کے پی کے پہلے ہی احساس محرومی، زیادتیوں، حق تلفیوں کے حوالے سے شعلہ فگار ہو کر سب کچھ خاکستر کرنے پر تُلے ہوئے اور اب صوبہ سندھ کینالوں کے حوالے سے بھی سلگ رہا ہے اور قوم پرست تنظیمیں اس طرح کے منصوبے کو جو سندھ کے حقوق پر ڈاکا کے مترادف ہے سلگانے اور بھڑکانے کے لیے بڑھ چڑھ کر خوب پھونکیں مار رہے ہیں۔ یہ آگ بھڑک اُٹھی تو پھر کیا سندھ کو قندھار لگ جائے گا۔ یعنی قندھار افغانستان ہڑپ کرجائے گا۔ سندھ والی روایت پوری ہوجائے گی جو بڑے بوڑھے کہتے آرہے ہیں یا پھر وہ مرحلہ حکومت کی نااہلی کی وجہ آجائے گی جو سندھ کے معروف شاعر عبدالرحیم گرھوڑی کی پیش گوئی اور ایک روایت بھی ہے کہ سندھ قیامت سے 40 سال قبل تباہ ہوجائے گا۔
بلاول زرداری کا میڈیا میں کہنا ہے کہ چھے کینال کے سلسلے میں حکومت اس معاملے کو ٹھنڈی کرکے کھائے کہیں ایسا نہ ہو کہ کالا باغ ڈیم کی طرح یہ منصوبہ بھی ناقابل عمل ہوجائے۔ یہ کیا ہے سندھ کے عوام کہہ رہے ہیں اور درست ہی کہہ رہے ہیں کہ کس قیامت کے نامہ اعمال ہمارے نام آرہے ہیں۔ چھے کینال منصوبہ کہیں شیخ مجیب الرحمن کے چھے نکات کی طرح ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بن جائے۔ مشتری ہشیار باش، ہٹ دھرمی ہلاکت لاتی ہے، تباہی و بربادی کا سامان کرتی ہے، افہام و تفہیم سلامتی کی راہ ہے، دھوکا دہی یہ لااعتباری کو جنم دیتی ہے جو دھرتی کو جہنم بنا دیتی ہے اور جھوٹے پر تو ویسے ہی اللہ کی لعنت قرآن نے بتائی ہے۔ کیا سندھ اب نشانہ ستم ہے۔ حکمران پی پی پی کی سندھ کی قیادت کی بھی ہمت نہیں کہ وہ اپنے صدر آصف علی زرداری کے فیصلے کی کھل کر حمایت کرے وہ بھی بیانات کی حد تک ان کینالوں کی مخالف کررہی ہے اُسے خوب پتا ہے کہ اگر اس منصوبے کی حمایت کی تو اس کی سیاست دریائے سندھ میں غرق ہوجائے گی۔ اب وہ ’’ہاری کارڈ‘‘ کے ذریعے تالیف تلوب کا سامان کررہی ہے۔ مگر یہ آنسو پوچھنے والی سیاست کیا بچوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کے منصوبے میں کامیاب ہوسکے گی۔ پانی نہ ہوگا تو فصل کب ہوگی، اور پھر بال بچوں کا نان و نفقہ کہاں سے آئے گا؟