کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) سیکورٹی فورسز کمزور قانون کی وجہ سے دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہیں‘ بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتا‘ افغان حکومت کی سرپرستی میں در اندازی جاری رہتی ہے‘ مجرم پکڑے جائیں تو ناقص تفتیش سے ریلیف مل جاتا ہے‘ انتہا پسند گروہوں سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا‘ فنانشنل لائف لائن کاٹنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ان خیالا ت کا اظہار کراچی میں قائم جسٹس پیر محمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر و معروف کالم نگار پیر فاروق بہائوالحق شاہ، کریکٹر ایجوکیشن فائونڈیشن پاکستان کے ایمبیسڈر، پاکستان ترکی بزنس فورم کے بانی و صدر محمد فاروق افضل اور معروف تجزیہ نگار و سماجی رہنما ڈاکٹر ابو بکر نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی کی وارداتوں کو کیوں نہیں روک پارہے؟‘‘ پیر فاروق بہائوالحق شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجوں سے گزر رہا ہے اور قانون نافذ کرنے
والے ادارے دہشت گردوں کی وارداتوں کو روکنے کی بھرپور کوششیں بھی کر رہے ہیں‘ ہمیں بنیادی وجوہات سے نمٹنے اور انتہا پسندی کے بڑے عوامل کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دینی ہوگی‘ اس ضمن میں گورننس اور قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا، معاشی کمزوری سے نمٹنا، آن لائن پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنا اور عسکریت پسندی سے نمٹنا شامل ہے‘ حکومت کی کوشش ہے کہ انسداد دہشت گردی کے مقصد سے جاری قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس کے ذریعے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کو واضح پیغام بھی دینا ہے کہ ریاست کمزور نہیں ہوئی اور ان کے خلاف کارروائی جاری رہے گی‘ پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ پر واقع ہے کہ جہاں پر ایک طرف اس کا ازلی دشمن بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جبکہ اس کی دوسری طرف افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں طویل عرصہ سے ”سرمایہ کاری” کر رکھی ہے۔ قندھار کو بجا طور پر بھارت کا بیس کیمپ کہا جا سکتا ہے جہاں سے بیٹھ کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی سنگین کارروائیاں ہوتی ہیں۔ محمد فاروق افضل نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں انتشار اور ابہام کے دہانے پر لاکھڑا ہے‘ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ رہی ہے کہ عوامی سیاست میں جھوٹ اور غلط معلومات پھیلائی گئیں اور دھوکے بازی سے کام لیا گیا لیکن اس غلطی پرکوئی ندامت محسوس نہیں کی گئی اور نتائج کو نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ قانون کی حکمرانی کا واضح فقدان رہا ہے‘ قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی میں ملوث افراد کو حراست میں تو لیتے ہیں تاہم ناقص اور ادھوری تفتیش اور شواہد کی کمی کی وجہ سے اکثر ان مشتبہ افراد کو عدالت سے ریلیف مل جاتا ہے‘ ثبوتوں کی کمی اور تفتیش میں کوتاہی کی وجہ سے بعض کیسز میں زیر حراست افراد کو قانونی ریلیف ملتا ہے‘ اس نقص یا کمی کو ختم کرنے کے لیے بھی کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری تفتیش کار اگر غلط، بے بنیاد اور ادھوری تفتیش کرتا ہے اور اس کا فائدہ مجرم یا دہشت گرد یا ان کے سہولت کار کو پہنچتا ہے تو اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہے تاکہ تفتیش کار کی بھی باز پرس ممکن ہوسکے۔ اسی طرح عدالتی فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق تو حاصل ہے لیکن غلط فیصلہ کرنے والے ججز سے باز پرس کا کوئی قابل عمل میکنزم بھی ہونا چاہیے تاکہ سسٹم کو نقائص سے پاک کیا جائے، اس سے نظام عدل میں بیلنس پیدا ہوگا‘ اکثر حملوں میں خودکش حملہ آور بھی ہلاک ہو جاتے ہیں‘ ایسے میں کیس نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوتا ہے۔ پولیس میں تفتیشی افسران کی کمی ہے ، جدید ٹیکنالوجی اور علوم سے ناآشنائی کے باعث بھی 50 فیصد کیسز خراب ہوتے ہیں‘ پاکستان کو معاشی طور پر استحکام سے روکنے کے لیے کچھ عناصر مسلسل کام کر رہے ہیں‘ ایسے عناصر نے پاکستان کی معاشی ترقی کو روکنے کی پوری کوشش کی‘ انتہاپسند گروہوں کی فنانشنل لائف لائن کاٹنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسائل ناقابل حل ہوتے گئے، سسٹم کو وائٹ کالر کریمنلز سے پاک کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے‘ اگر سسٹم انتہا پسند نظریات، انتہا پسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے ہمدردوں اور سہولت کاروں سے پاک ہوجائے تو دہشت گردی اور لاقانونیت پر قابو پانا مشکل نہیں رہتا ہے‘ حالیہ برسوں میں تشدد انتہا پسندانہ بیانیے مختلف سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے تیزی سے پھیل رہے ہیں‘ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ سازشی نظریات اور پرتشدد نظریات کے درمیان روابط کی گہرائی اور باریکی کو سمجھا جا سکے۔ ڈاکٹر ابو بکر نے کہا کہ دہشت گردی کا مسئلہ پاکستانی قوم کے لیے نیا نہیں‘ اس کا سلسلہ پچھلے کئی عشروں سے جاری ہے ‘ ہر نئی واردات کے بعد سیاسی، عسکری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے محض مذمتی بیانات اور دہشت گردی کی کمر توڑ دینے کے اعلانات قوم کے لیے اسی وقت باعث اطمینان ہوسکتے ہیں جب دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات سے عملی صورتحال میں کوئی واضح بہتری بھی نظر آئے‘ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے پورے ملک خصوصاً شدید طور پر متاثر صوبوں بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں جاری قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مسلسل آپریشنوں اور ہمارے جوانوں کی بڑی تعداد میں قربانیوں کے باوجود دہشت گردی میں کمی کیوں نہیں آرہی ہے۔ کیا محض طاقت کے استعمال سے اس مسئلے کا حل ہونا ممکن ہے یا ماضی کی طرح بات چیت کے راستے بھی کھلے رکھے جانے کی ضرورت ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت وسیع تر مشاورت کے ذریعے ان حقائق کی روشنی میں درپیش چیلنج سے نمٹنے کی خاطر بہتر حکمت عملی وضع کرے کیونکہ بظاہر موجودہ حکمت عملی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی ہے‘ پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار کسی ایک فرد ،ادارے یا عمل کو قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس حوالے سے اگر ہم اپنے ملک ہی کے مختلف قسم کے سماجی، سیاسی، تاریخی اور بین الاقوامی نوعیت کے عوامل کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ دہشت گردی جو آج ہمارا ایک انتہائی پیچیدہ قسم کا مسئلہ بن چکا ہے اسے خود ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے سر پر مسلط کیا ہے ۔