شام کے انقلابیوں کو باغی کہنا مناسب نہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شام کے انقلابیوں کی ایک طویل جدوجہد نے بالآخر ’’اسدی خاندان‘‘ کے 54 سالہ ظالمانہ اقتدار کو ختم کر کے ان ہزاروں لاکھوں ورثاء اور لواحقین کی دعائیں حاصل کر لیں کہ جن کے پیارے حافظ الاسد اور ان کے صاحبزادے بشار الاسد کے عقوبت خانوں اور تہہ خانوں میں انتہائی بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیے گئے جن کی عزت دار خواتین کو بے عزت کیا گیا اور جن کے بے گناہ عزیز و اقارب قید و بند کے طویل عذاب سے گزرے۔ شامی شہداء اور مظلومیں کی قربانیاں رنگ لائیں، بشار حکومت کا خاتمہ ہوا اور عوام نے سکھ کا سانس لیا۔ اس کا تمام تر کریڈیٹ احمد حسن الشریح عرف محمد الجولانی اور ان کے ساتھی کو جاتا ہے۔ شام کے مظلومین اور شہداء کے لیے ہم دعاگو ہیں کہ اللہ ربّ العزت انہیں دنیا اور آخرت کی عافیت عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین تاہم شامی انقلابیوں نے جس مختصر عرصے میں ایک مضبوط آمر کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا یہ کوئی آسان بات نہیں ہے اس لیے بعض سنجیدہ حلقوں میں کچھ سوالات گردش کر رہے ہیں کہ یہ سب کچھ اچانک کیسے ہوا…؟
سوال یہ ہے کہ 2011ء میں ’’عرب بہار‘‘ سے لے کر 2014ء تک شامی انقلابیوں کو کوئی خاص قابل ذکر کامیابی تو نہ مل سکی مگر یہاں محض 10 روز کے اندر اندر حلب، ادلب اور حمص جیسے شہروں پر قبضہ ہو جانے کے بعد دمشق کی جانب پیش قدمی اور پھر کسی خون خرابے کے بغیر دارالحکومت پر بھی انقلابیوں کو فتح حاصل ہوجانا کوئی عام سی بات نہیں۔ اسی دوران روسی فوج کہاں تھی اور کیوں خاموش رہی جب کہ ماضی میں تو انتہائی ظالمانہ اور بے رحمانہ ایکشن کے ذریعے بشار مخالفین کو کچلتی اور دمشق کا دفاع کرتی رہی مگر اس مرتبہ ایسا کیوں نہیں کر سکی…؟
ایرانی ملیشیا اور حزب اللہ کے مجاہدین بھی اس مرتبہ کوئی بڑی کارروائی نہ کر سکے آخر کیوں…؟ ترکی کی انقلابیوں کو گولہ باردو سمیت اخلاقی اور سیاسی حمایت حاصل ضرور تھی تاہم ترک فوجی دستے انقلابیوں کے ساتھ نہیں تھے۔ سعودی عرب بھی محتاط رہا جب کہ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ ایرانی قیادت نے بھی کوئی سخت ردعمل نہیں دیا حالانکہ دمشق اور تہران کے درمیان تعلقات انتہائی قریبی اور گہرے تھے۔ تہران معنی خیز انداز میں شامی انقلابیوں پر نرم اور مختصر تنقید کے ساتھ خاموش رہا۔ علاوہ ازیں ان سب باتوں سے زیادہ اہم بات یہ بھی ہے کہ ڈھائی کروڑ کی آبادی والے ملک شام کو تقریباً 3 لاکھ فوج جو جدید ترین روسی اسلحہ سے لیس تھی وہ انقلابیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے عراق فرار کیوں ہو گئی…؟ عراق فرار ہو جانے کے بعد کسی سابقہ شامی فوجی افسر نے کوئی بیان کیوں نہیں دیا کہ ہم کہاں اور کس حال میں ہیں۔ فراری شامی فوجیوں نے شام کے اندر موجود اپنی فیملیز کی خیریت معلوم کرنے یا انہیں بھی عراق منتقل کرنے کی کوئی بات کیوں نہیں کی گو کہ انقلابیوں نے عام معافی کا اعلان بھی کر دیا ہے تاہم پھر بھی ظالم اور قاتل حکمرانوں کے وفادار فوجیوں کو اپنے بال بچوں کی فکر تو ہونی چاہیے…؟ شامی انقلابیوں نے شام کے عوام کے اطمینان کے لیے بہت سے قابل تحسین اقدامات اٹھائے تاہم بہت سے ایسے معاملات ابھی باقی ہیں کہ جن پر انقلابی قیادت کے فیصلوں کا انتظار ہے جن میں سے بعض فیصلے ایسے ہوں گے کہ جن کے سامنے آنے کے بعد ’’انقلابی قیادت‘‘ کے مستقبل کے تعارف کا تعین کیا جا سکے گا۔
اس ساری صورت حال کا اگر ہم باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں تو دو طرح کے امکانی فیصلوں پر نظر پڑتی ہے اوّل یہ کہ امریکا اور روس کے درمیان کوئی ڈیل ہوئی ہے کہ جس پر ماسکو نے واشنگٹن سے کہا کہ ٹھیک ہے ہم بشار الاسد کی حکومت کو ختم کرنے میں تمہاری مدد کرتے ہیں اور اس کے بعد آپ یوکرین سے ہماری جان چھڑانے میں مدد کریں گے جس پر امریکا نے ’’Yes‘‘ کہا ہو گا اور اب امکان یہ ہے کہ یوکرین کا مسئلہ ماسکو کی خواہش کے مطابق حل کر لیا جائے گا تاہم اگر یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی نے رکاوٹ بننے کی کوشش کی تو وہ ’’CIA‘‘ کے ایجنٹوں کے ہاتھوں قتل ہو سکتا ہے لہٰذا یہ بات بھی سمجھی جا سکتی ہے کہ بشار الاسد حکومت کو جس تیزی کے ساتھ زوال کا سامنا کرنا پڑا اس میں امریکا اور روس کی ڈیل بھی شامل تھی۔
دوم… شام کے سارے منظرنامے میں امکانی طور پر یہ بات بھی پوشیدہ ہو سکتی ہے کہ ’’اسرائیل فلسطین‘‘ جنگ کو مدنظررکھتے ہوئے ممکن ہے مشرق وسطیٰ کے تمام جہادیوں نے ایران کی کمانڈ میں یہ فیصلہ کیا ہو کہ بشار الاسد کی حکومت کو اب جانے دو جب کہ حماس، حزب اللہ، حوثی اور تحریک الشام ایک پیج پر آجائیں تا کہ اسرائیلی دہشت گردی اور جارحیت کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ ممکن ہے ایران اور دیگر جہادی گروپوں کی مذکورہ حکمت عملی سے روس بھی بے خبر ہو تاہم ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شامی انقلابیوں سمیت دیگر جہادی گروپوں اور ایران کی یہ خواہش ضرور ہو گی کہ غزہ (فلسطین) کے محاذ پر اسرائیل کو عبرتناک شکست سے دوچار کر کے امریکا کو گھٹنوں پر بٹھا دیا جائے۔
بہرحال اوّل یا دوم میں سے جو بھی حکمت عملی یا ڈیل اختیار کی گئی ہے اس سے اگر مشرق وسطیٰ کے امن کوکوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے تواس کی تائید کی جائیگی۔ اللہ پاک شامی انقلابیوں کی رہنمائی اور اہل فلسطین کی مدد فرمائے… آمین