20 ویں صدی میں بڑے اہم واقعات ہوئے ہیں اس میں دو تو عالمی جنگیں ہوئیں جس میں کروڑوں افراد ہلاک اور اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔ نوآبادیاتی نظام ختم ہوا کئی ممالک آزاد ہوئے پوری دنیا میں صنعتی انقلاب آیا۔ سائنسی ایجادات جتنی اس صدی میں ہوئیں اتنی پچھلی 19 صدیوں میں نہیں ہوئیں۔ دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سرد جنگ کا آغاز اسی صدی میں ہوا اور پھر اختتام بھی اسی میں ہوا۔ ایٹم بم کا پہلا اور (اس وقت تک کا) آخری استعمال بھی اسی صدی میں ہوا۔ ایک یہودی ریاست کا قیام بھی اسی صدی میں ہوا سقوط مشرقی پاکستان کا سانحہ بھی اسی میں ہوا۔ یہ تو کچھ خاص خاص چیزیں ہیں ورنہ اور بہت سے اہم واقعات ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس صدی میں دو اہم معجزے ہوئے ہیں پہلا معجزہ ایک اسلامی ملک پاکستان کا قیام۔ حاکم انگریز اور ہندوئوں کی اکثریت کے جبڑوں سے مسلمانوں کے لیے ایک ملک کا نکالنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ قائد اعظم محمدعلی جناح اور دیگر مسلم رہنمائوں کی محنت شاقہ اللہ کی رحمت اور اس کے حبیب کے صدقے میں اسلام کے نام پر ایک نظریاتی مملکت وجود میں آئی۔ اس کے قیام کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے جانوں کی قربانیاں دیں، ہزاروں عصمتیں تار تار ہوئیں کروڑوں لوگوں نے اپنے گھر اور جائدادیں چھوڑیں، اپنے آبا و اجداد کی یادگاروں کو خیرباد کہا ایک آگ اور خون کا دریا تھا جسے عبور کیا گیا یہ الگ بات ہے کہ ہم نے اس نعمت کی اس طرح قدر نہیں کی جیسے کرنا چاہیے چنانچہ آدھا خطہ ہم سے چھن گیا۔
اس صدی کا دوسرا معجزہ واحد اسلامی ملک پاکستان کا ایٹمی دھماکا کرنا۔ جب 1974 میں بھارت نے ایٹمی دھماکا کیا تو اس وقت پاکستان جو سقوط ڈھاکا کا زخم کھائے ہوئے تھا اس کی سلامتی کے خدشات نمایاں ہوگئے ایسے میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پراسس کا آغاز کیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے خط لکھ کر اپنی خدمات پیش کی بھٹو صاحب نے ان کو پورے اختیارات کے ساتھ اس اہم منصوبے کی ذمے داری دی۔ بھٹو نے ایٹمی لوازمات کے حصول کے لیے خفیہ طریقے سے اور بہترین حکمت عملی سے کام لیا جو ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ بہت پہلے مولانا کوثر نیازی کی ایک کتاب نظر سے گزری تھی جس میں بھٹو کی دوڑ بھاگ اور کوششوں کی تفصیلات رقم کی گئی تھی۔ پھر فرانس سے ایٹمی پلانٹ خریدنے کی بات ہوچکی تھی اس حوالے سے بھٹو کو فرانس کا دورہ کرنا تھا کہ ملک میں ان کے خلاف تحریک چلی اور وہ اقتدار سے معزول ہوگئے۔ امریکا ان سارے معاملات پر گہری نظر رکھے ہوئے تھا اسی تناظر میں اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کہا تھا کہ بھٹو کو عبرت کی مثال بنادیا جائے گا۔ اور پھر یہی ہوا کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے فرانس کے دورے کا پروگرام بنایا اور اس کا مقصد یہی تھا کہ ایٹمی پلانٹ کے حوالے سے جو پیش رفت ہو چکی ہے اس کو اب فائنل کرلیا جائے۔ معروف صحافی ہارون رشید نے اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں یہ تھا کہ فرانس کے دورے سے ایک دن قبل صدر ضیاء الحق کو ایک لفافہ ملا جو ایک بڑے ملک کے سفارتخانے سے آیا تھا اس میں یہ کہا گیا تھا کہ آپ فرانس جا تو رہے ہیں وہاں ایٹمی پلانٹ کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ یہ امریکی وارننگ تھی۔
1978 میں روس نے افغانستان پر حملہ کردیا پہلے دوسال تک افغان مجاہدین روسی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے رہے اور ان افغان مجاہدین کو پاکستان نے مالی اخلاقی اور عسکری مدد فراہم کی۔ جب امریکا نے یہ دیکھا کہ ان افغان مجاہدین نے پاکستان کی مدد سے روس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روک دیا اور سخت مزاحمت سے ایک تاریخ رقم کی ہے تو وہ بھی روس سے اپنا قرض چکانے کے لیے میدان میں آگیا۔ پاکستان تو پہلے ہی سے بالواسطہ اس جنگ میں شریک تھا امریکا کے آجانے سے جنگ میں تیزی آگئی۔ امریکا کے دل میں پاکستان کی محبت جاگ اٹھی یہی وہ موقع تھا جس میں پاکستان بہت تیزی سے ایٹم بم مکمل کرنے میں لگ گیا اور 1984 میں یہ اہم مرحلہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جنرل ضیاء سے کہا کہ ایٹمی دھماکا کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے منع کردیا۔ امریکا کے علم میں سب کچھ تھا لیکن وہ افغان وار میں الجھا ہوا تھا اور پاکستان کے خلاف سخت ایکشن لینے کا موقع بھی نہیں تھا۔ بس یہ ہوا کہ پریسلر ترمیم کے تحت کچھ پابندیاں لگ گئیں۔ F-16 کے پیسے روک لیے۔ پھر یہی وہ سال تھا جس میں بہت زور شور سے صدائیں بلند ہورہی تھیں کہ بھارت پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے۔ پھر یہ ہوا کہ مشاہد حسین کے ذریعے ہندوستان کے معروف صحافی کلدیپ نائر نے ڈاکٹر عبدالقدیر کا انٹرویو کیا جس میں ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ ہاں ہم نے ایٹم بم تیار کرلیا ہے۔ انہوں نے یہ انٹرویو اپنے اخبار میں شائع کیا تو پورے بھارت میں تہلکہ مچ گیا۔ ان ہی دنوں میں کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے جنرل ضیاء ہندوستان گئے واپسی پر جب راجیو گاندھی ائر پورٹ پر الوداع کہنے آئے تو جنرل ضیاء نے ان کے کان میں ایک جملہ کہا کہ آپ نے ہم پر ایٹم بم گرایا تو دنیا سے مسلمان ختم نہیں ہوجائیں گے لیکن ہم نے گرایا تو دنیا سے ہندو ختم ہوجائیں گے یہ کہہ کر وہ جہاز کی سیڑھیوں پر چڑھ گئے اور راجیو گاندھی ہکا بکا ہوکر منہ دیکھتے رہ گئے۔
جس طرح آج امریکا کی طرف سے بلیسٹک میزائل کی لانگ رینج کے حوالے سے بیان آیا ہے اور چار کمپنیوں پر پابندی لگائی گئی ہے، یہ امریکا کی دوغلی پالیسی کی عکاسی ہے کہ بھارت نے تو پہلے ہی پانچ ہزار کلومیٹر رینج کے میزائل بنا لیے ہیں لیکن ہندوستان کو کچھ نہیں کہا اور پاکستان کے میزائل کے بارے میں ایسا واویلا کیا جارہا ہے کہ جیسے پاکستانی میزائل سے امریکا کی سلامتی کو خطرہ ہے۔ میزائل ٹیکنالوجی کا آغاز بینظیر کے پہلے دور سے شروع ہوا تھا پھر نواز شریف کے دونوں ادوار سے ہوتا ہوا پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کئی میزائل بنا چکا تھا ڈاکٹر قدیر کہتے ہیں کہ ہم نے پانچ ہزار کلو میٹر رینج کے میزائل کا منصوبہ بتایا تو پرویز مشرف نے اسے روک دیا کہ ہماری دشمنی بھارت سے ہے اسرائیل سے نہیں ایک پروگرام میں نجم سیٹھی بتارہے تھے کہ 1990 میں امریکا کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان نے لیبیا کو فروخت کردیا ہے، چونکہ اس کی تیاری میں لیبیا نے دل کھول کر مالی تعاون کیا تھا اس لیے امریکا کو یہ خدشہ تھا کہ قذافی ایک سرپھرا شخص ہے پاکستان سے ایٹم بم لے کر اسرائیل پر نہ پھینک دے۔ پھر وہ بات ختم ہوگئی لیکن وقفے وقفے سے پاکستان کی ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی کے حوالے امریکا اور مغرب کچھ نہ کچھ شوشا چھوڑتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے لانگ رینج میزائل سے امریکا کو تو کوئی خطرہ نہیں لیکن امریکا کی نیند اس لیے اڑ رہی ہے کہ اس سے اسرائیل کی سلامتی خطرے میں پڑتی نظر آرہی ہے۔ اس موضوع پر ایک مضمون 11 مارچ 2023 کو بھی لکھا تھا جس کا ایک اقتباس پیش خدمت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ایٹم بم امریکا، بھارت اور اسرائیل کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے، اسرائیل نے جس طرح عراق کے ایٹمی پلانٹ کو تباہ کیا تھا اسی طرح وہ کئی بار پاکستان کے ایٹمی پلانٹ کو بھارت کی مدد سے تباہ کرنے کا پرگرام بنا چکا ہے۔ ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے ہر دفعہ پاکستان کے عسکری حلقوں کو مطلع کردیا اور پھر پاکستان کی طرف سے دونوں ممالک کو کہا گیا کہ اگر پاکستان کا ایٹمی پلانٹ تباہ ہوا تو پھر دنیا میں بھارت کا ایٹمی پلانٹ بچے گا نہ اسرائیل کا۔ اس سازش کی پشت پر امریکا کا ہونا یقینی امر ہے اس لیے اب سوچا گیا کہ پاکستان کو معاشی طور پر اتنا لاغر کردیا جائے کہ اسے یہ بات ماننے پر مجبور کردیا جائے کہ وہ اپنے بجٹ میں دفاع کی مد میں کٹوتی کرے اس میں کچھ اُڑتی اُڑتی خبریں یہ بھی آرہی ہیں کہ پاکستان سے کہا جائے کہ اپنے ایٹم بم کی حفاظت پر جو رقوم خرچ کرتا ہے وہ بہت کم کردے اور اسی طرح میزائل ٹیکنالوجی میں مزید کام بند کردیا جائے۔ پاکستان ملک میں مختلف ٹیکسز بڑھانے بجلی کی قیمتوں کو بڑھانے کی آئی ایم ایف کی ہر بات تسلیم کرلے گا پاکستانی عوام بھی بہ امر مجبوری اسے مان لیں گے لیکن یہ بات کسی طور پر نہیں مانے گا۔ اس لیے کہ ہم اپنے موجودہ اور سابق حکمرانوں پر کتنی ہی تنقید کریں یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہمارے کسی حکمران نے اپنے ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی میں کوئی سودے بازی نہیں کی۔