پیپلز پارٹی یا پراپرٹی

119

27 دسمبر2007 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سیاہ ترین دن مانا جاتا ہے جب ملک کی مقبول ترین رہنما محترمہ بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ عام کے اختتام پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا جو نہ صرف ایک بلٹ پروف گاڑی میں سوار سخت ترین سیکورٹی کے ساتھ اپنے ہزاروں جاں نثاروں کے حصار میں بھی محفوظ نہ رہ سکیں اس لمحے ہر شخص یہی سوچ رہا تھا کہ جب ایک طاقتور سیاسی رہنما کو سخت ترین حفاظت میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں نشانہ بنایا جا سکتا ہے تو عوام کا تحفظ کیسے ممکن ہے؟؟ عوام کو یاد ہوگا جب میر مرتضی بھٹو کو کراچی میں سر عام پولیس مقابلے کے نام پر قتل کردیا کیا گیا تھا تو اس وقت بھی یہی سوال اٹھا تھا کہ جب ایک برسر اقتدار وزیراعظم کے بھائی کو دن دھاڑے قتل کیا جا سکتا ہے تو عوام کس کھیت کی گاجر مولی ہیں۔ محترمہ بینظیر کی شہادت یقینا ایک بہت بڑی دہشت گردی تھی لیکن اس سے بھی بڑی دہشت گردی اس واقعے کے بعد نظر آئی جب اگلے 36 گھنٹے تک پاکستان کے متعدد شہر ہنگامہ آرائی جلا گھیرائو اور توڑ پھوڑ کی زد میں تھے جہاں سرکاری اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا صرف پاکستان ریلوے کو تین ارب کا نقصان اٹھانا پڑا کیونکہ بلوائیوں نے ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑیوں کے ساتھ ریلوے اسٹیشنوں کو بھی نذر اتش کردیا تھا اس ہنگامہ آرائی میں جہاں سیکڑوں افراد زخمی ہوئے وہیں تقریباً 60 افراد کی ہلاکتیں بھی ہوئیں (اس دوران جو افراد گرفتار کیے گئے تھے وہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ان سب کو رہا کر دیا تھا)۔

سندھ میں اس احتجاج کی نوعیت کچھ مختلف رہی اور ایک مخصوص طبقے کی املاک کو چن چن کر پہلے لوٹا گیا اور پھر نذر آتش کر دیا گیا ہنگاموں کی وجہ سے کارخانوں میں محصور رہنے والے افراد کو کارخانوں سمیت جلانے کی کوشش کی گئی جس میں اکثریت نے آگ اور خون کا دریا پار کر کے جانیں بچائیں گارمنٹ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کی بسوں پر ناصرف پتھراؤ کیا گیا بلکہ ناز یبا کلمات بکے گئے اور بعض مقامات پر حوا کی بیٹی کے ساتھ لوٹ مار اور چھینا جھپٹی کے واقعات بھی رونما ہوئے۔ ریلوے اسٹیشنوں کی آتش زدگی کے بعد ٹرینوں کو جنگل اور بیابان میں ہی روک دیا گیا اور یوں مسافوں بشمول شیر خوار بچوں اور خواتین نے رات خوف و ہراس اور اذیت میں گزاری یہاں پر ان کی حفاظت اور امداد کے لیے مقامی شہری آبادی کے افراد بڑی تعداد پہنچے ان کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں اور شیر خوار بچوں کو دودھ کے فیڈر تک دیے گئے ایسی صورت حال کے باوجود آفرین ہے اس وقت کی حق پرست قیادت کو جنہوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے اس المناک احتجاج کو لسانی فساد میں تبدیل کرنے کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ سوئم پر جا کر یہ سلسلہ ختم ہوا تو ایک نیا پنڈورا بکس کھل گیا وہ تھا ’’بینظیر صاحبہ کا وصیت نامہ‘‘ جس کے مطابق ان کی وفات کی بعد پارٹی کی چیئرمین شپ کے لیے کسی سینئر رہنما کے بجائے اپنے نابالغ بیٹے بلاول کو نامزد کیا گیا اور اس کی بلوغت تک اپنے شوہر محترم آصف علی زرداری صاحب کو شریک چیئرمین بنایا گیا (آصف زرداری نے یہ ذمے داری بڑی خوش اسلوبی سے نبھائی)

وصیت میں پارٹی کے ذکر سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے پارٹی ان کی ملکیت تھی اور والدین کی ملکیت پر اولاد کا ہی حق ہوتا ہے۔ بینظیر جیسی جمہوری سوچ رکھنے والی شخصیت کی اس وصیت پر لوگوں کو افسوس بھی ہوا اور کچھ… دبئی پراپرٹی لیکس میں بلاول زرداری کی جائداد کے ظاہر ہونے پر بلاول کے ترجمان نے رد عمل دیتے ہوئے کہا چیئرمین اور ان کی بہن آصفہ زرداری کے تمام اثاثے الیکشن کمیشن اور ایف بی آر میں ڈکلیئر ہیں اور یہ بات سب کے علم میں ہے کہ بلاول زرداری اور آصفہ زرداری نے جلاوطنی میں پرورش پائی اور اس دوران وہ شہید بی بی کی املاک میں رہائش پذیر تھی ترجمان کے مطابق بی بی کی شہادت کے بعد دبئی کی املاک وراثت میں ملی تو اب یہ بات طے ہے کہ مرنے کے بعد والدین کی املاک ان کی اولاد یعنی وارثوں کو ملتی ہے تو پھر پیپلز پارٹی بھی بینظیر کی ملکیت ہی تھی اور اب اس کے وارث یعنی بلاول زرداری کو مل گئی ہے۔ یہاں پر ہم کو ایک مفکر کا یہ قول یاد آرہا ہے ’’جب پارٹی کی قیادت ماں باپ سے بیٹی یا بیٹے کو منتقل ہو جائے تو وہ پارٹی پارٹی نہیں رہتی بلکہ پراپرٹی کہلاتی ہے‘‘۔