مفاہمت، مذاکرات اور ڈکٹیشن

152

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت اور مذاکرات کے تناظر میں ایک نئی سیاسی بیٹھک سجائی جارہی ہے۔ دونوں اطراف سے اس عمل کے لیے مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا عمل بھی سامنے آگیا ہے۔ یقینی طور پر حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کو پس پردہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت بھی حاصل ہے اور اس کی حمایت کے بغیر اس کمیٹی کی تشکیل ممکن نہ تھی۔ حکومت کی مرضی سے زیادہ مفاہمت کی ضرورت اسٹیبلشمنٹ کو ہے۔ ان پر داخلی اور خارجی سیاست کا دبائو بھی ہے کہ پی ٹی آئی سے مفاہمت کا راستہ اختیار کرکے آگے بڑھا جائے۔ اگرچہ حکومت کی تو پوری کوشش ہے کہ پی ٹی آئی پر نہ صرف دبائو کو برقرار رکھا جائے بلکہ ان کو سیاسی راستہ دینے کی پالیسی بھی حکومت کا حصہ نہیں۔ لیکن کیونکہ اس حکومت کا ریموٹ کنٹرول اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور فیصلہ کی طاقت بھی وہی رکھتے ہیں۔ اس لیے جو کچھ ہونا ہے وہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر ہی ہونا ہے۔ خود پی ٹی آئی میں ایک بڑا گروہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کا حامی ہے اور اسی گروپ کا عمران خان پر بھی دبائو ہے کہ ہمیں اسٹیبلشمنٹ سے مزاحمت کے بجائے مفاہمت کا راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور خود ان کی جماعت نے بھی سیاسی طور پر ان کا گھیرائو کیا ہے کہ مفاہمت کی سیاست میں ہی سب کی بقا ہے۔ ایک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی حکمت عملی یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کو مذاکرات کے نام پر اکھٹا کیا جائے اور اس معاملہ میں تاخیری حربے اختیار کرکے وقت کو ٹالا جائے اور پیغام ہی یہ دیا جائے کہ ہم مذاکرات کا حصہ ہیں۔ دونوں اطراف کی مذاکراتی کمیٹی کا پہلا رسمی اجلاس ہوچکا ہے اور دونوں نے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ البتہ حکومتی کمیٹی نے اعتراض اٹھایا ہے کہ پی ٹی آئی کے لوگ سوشل میڈیا پر منفی تنقید کرکے مذاکرات کے عمل میں خرابی پیدا کررہے ہیں اور اس پر اتفاق کیا گیا کہ دونوں اطراف سے منفی تنقید سے گریز کیا جائے گا۔ کمیٹی کے اجلاس میں طے ہوا ہے کہ پی ٹی آئی اگلے اجلاس جو کہ دو جنوری کو ہونا ہے اس میں اپنے تحریری مطالبات کمیٹی کے سامنے پیش کرے گی اور ان مطالبات پر حکومتی کمیٹی غور کرکے معاملا ت پر غورکرے گی اور اپنی اپنی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس وقت دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں اطراف سے مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے جو سازگار ماحول درکار ہے اس کی کمی واضح طور پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اگرچہ حکومتی کمیٹی کا گلہ پی ٹی آئی سے ہے مگر خود حکومت میں شامل افراد اور وزیر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی پر شدید تنقید کررہے ہیں۔ دوسری طرف فوجی عدالتوں کی جانب سے بھی 25 پی ٹی آئی کے افراد کو دو سے دس برس کی قید سنانے کا فیصلہ بھی مذاکرات کے عمل میں خرابیوں کو جنم دے گا۔ پی ٹی آئی فوجی عدالت کی طرف سے سویلین افراد کو سزا سنانے کے فیصلہ کو انسانی حقوق اور آئین کے منافی قرار دے چکی ہے اور اس فیصلہ کو اعلیٰ عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان بھی کرچکی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ دونوں اپنی اپنی شرائط پر پی ٹی آئی سے مذاکرات چاہتے ہیں اور اس میں سب سے بڑا فیصلہ پی ٹی آئی کی جانب سے فوری طور پر نئے انتخابات سے دست برداری اور موجودہ حکومت کی قبولیت کی بنیاد پر جڑا ہوا ہے۔ اسی طرح حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ وہ کسی بھی صورت میں 9 مئی کے واقعات پر عدالتی کمیشن بنانے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی عمران خا ن کی فوری رہائی سمیت کوئی بڑا ریلیف دینا چاہتے ہیں۔ عمران خان کو کہا جارہا ہے کہ اگر وہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے مدد کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو ان کو مستقبل میں ریلیف مل سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر ان کو بنی گالہ یا پشاور جیل منتقل کیا جاسکتا ہے اور بنی گالہ کی صورت میں ان کو اپنی زبان بندی کرنا ہوگی اور خود کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھنا ہوگا۔ اسی طرح وہ کسی بھی طور پر حکومت گرائو نظام یا کسی بھی دھرنے کی سیاست کا حصہ نہیں بنیں گے اور اپنی جماعت کی سرگرمیوں کو پارلیمنٹ تک محدود رکھیں گے۔ جبکہ عمران خان کا بنیادی نقطہ نئے اور فوری انتخابات، 9 مئی اور 27 نومبر کے واقعات پر عدالتی کمیشن اور پی ٹی آئی کے لوگوں کی رہائی سے مشروط ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اور پی ٹی آئی میں سے کون سمجھوتوں کی سیاست کا شکار ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ حکومت ہو یا اسٹیبلشمنٹ یہ مذاکرات کے عمل کو ایک بڑی سیاسی ڈکٹیشن کی بنیاد پر چلانا چاہتے ہیں اور عمران خان کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ سمجھوتوں کی سیاست کرے۔ اسی لیے عمران خان اور ان کی جماعت پر مسلسل سیاسی اور عدالتی دبائو بڑھ رہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو فوجی ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ آئی ایس پی آر کے بقول جب تک 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جائے گا انصاف کے تقاضے کو پورا نہیں کیا جاسکے گا۔ یقینی طور پر ان کا اشارہ عمران خان کی طرف ہے۔ دوسری طرف اگر عمران خان اور بشریٰ بی بی کو عدالتوں سے سزائیں دی جاتی ہیں تو پھر مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہوگا۔ بلکہ جو لوگ اس وقت پی ٹی آئی میں مذاکرات کے حامی ہیں ان کے موقف کو بھی عملی طور پر نقصان ہوگا اور وہ بھی مذاکرات کے عمل سے گریز کریں گے۔ اس لیے جو حالات ہیں یا جو بنائے جارہے ہیں اس میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہیں۔ ایسے ہی لگتا ہے کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی وقت گزاری کے لیے مذاکرات کا آپشن اختیار کررہی ہے تاکہ پی ٹی آئی کو اس کھیل میں الجھائے رکھا جائے اور حکومت کے اقتدار کو فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ بھی نہ ہو۔ اصل امتحان بانی پی ٹی آئی عمران خان کا ہے کہ وہ اپنی اس مزاحمت کی سیاست میں کس حد تک حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سمجھوتا کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو لگتا ہے کہ اس وقت وہ مقبولیت بھی رکھتے ہیں اور عالمی دبائو بھی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر ہے کہ وہ کسی نہ کسی شکل میں پی ٹی آئی سے بات چیت کے بعد درمیانی راستہ نکالیں۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ عمران خان آسانی سے حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سرنڈر کردیں گے ممکن نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس وقت حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اگر ان سے مذاکرات کرنے کا سیاسی دربار سجارہی ہے تو کچھ دبائو ان پر بھی ہے۔ اس لیے وہ ایک بار پھر دبائو کی سیاست کی حکمت عملی کو جاری رکھیں گے اور کوشش کریں گے کہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنے مطالبات پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو دبائو میں لاکر اپنی سیاسی اہمیت کو برقرار رکھیں کیونکہ عمران خان مذاکرات کی بنیاد پر سرنڈر کے تصور کو اجاگر کرنے کے بجائے اسے اپنی جیت کے طور پر پیش کریں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کس حد تک خود کو عمران خان کی حکمت عملی سے بچاسکے گی۔