بنگلا دیش کی عبوری حکومت انتقام لینے پر تُلی ہے، شیخ حسینہ کے بیٹے کا الزام

166

بنگلا دیش کی معزول وزیرِاعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے نے کہا ہے کہ بنگلا دیش کی عبوری حکومت سیاسی انتقام لینے پر یقین رکھتی ہے اس لیے بھارت سے مطالبہ کر رہی ہے کہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلا دیش کے حوالے کیا جائے۔

سنجیب واجد کا یہ بیان بنگلا دیش کی عبوری حکومت کی طرف سے شیخ حسینہ واجد کی حوالگی کے حوالے سے بھیجے جانے والے سفارتی نوٹ کے دو دن بعد سامنے آیا ہے۔ سنجیب واجد نے ایک طویل ایکس پوسٹ میں کہا کہ بھارتی حکومت نے شیخ حسینہ واجد کو پناہ دی ہے اس لیے اُس کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ حوالگی سے مکمل گریز کرے۔

واضح رہے کہ بنگلا دیش کے قیام کے لیے فیصلہ کن باغیانہ تحریک چلانے والی جماعت عوامی لیگ کو بھارت کی بھرپور حمایت حاصل تھی اور یہی سبب ہے کہ بنگلا دیش کے قیام کے بعد بنگلا دیش میں بھارت کا عمل دخل بہت زیادہ رہا جس کے باعث بنگلا دیش کے لیے کبھی اپنے طور پر زندہ رہنا ممکن نہ ہوسکا۔ 5 اگست 2024 کو ختم ہونے والے عوامی لیگ کے 15 سالہ اقتدار کے دوران بنگلا دیش میں بھارت کا عمل خطرناک حد تک زیادہ رہا اور اِس دوران بنگلا دیش کے بیشتر فیصلے بھارت کی مرضی سے یا اُس کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے نقطہ نظر سے کیے جاتے رہے۔

سنجیب واجد نے اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا ہے کہ بنگلا دیش میں استحکام اب تک پیدا نہیں ہوسکا ہے۔ سیاسی خلا موجود ہے اور معیشت کے لیے الجھنیں بھی برقرار ہیں۔ ایسے میں شیخ حسینہ واجد کو بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے حوالے کیے جانے سے ملک میں سیاسی تقسیم بڑھے گی۔ بنگلا دیش کے انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل نے بھی شیخ حسینہ واجد کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں۔ یہ وہی ٹربیونل ہے جس کے تحت جماعتِ اسلامی اور بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی رہنماؤں کو سزائے موت دی گئی ہے۔

سنجیب واجد نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں قائم بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے عدلیہ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی ہے اور عوامی لیگ کی قیادت کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ شیخ حسینہ واجد کے بیٹے کا یہ بھی الزام ہے کہ انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل کے ذریعے شیخ حسینہ واجد کے ساتھ ساتھ اُن کی کابینہ کے ارکان اور دیگر سیاسی قائدین کے خلاف مقدمات قائم کرکے اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے سے بنگلا دیش میں سیاسی تقسیم مزید وسیع اور گہری ہوگئی ہے۔

کم و بیش ڈھائی ماہ جاری رہنے والی طلبہ تحریک کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے اب تک بنگلا دیش میں معاملات مکمل طور پر درست نہیں ہوسکے ہیں۔ معیشت خطرات میں گھری ہوئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری کا گراف نیچے آچکا ہے۔ بے روزگاری بڑھ گئی ہے کیونکہ بیشتر کاروباری ادارے پانچ ماہ قبل رونما ہونے والی تبدیلیوں کے سنگین اثرات سے اب تک نجات نہیں پاسکی ہے۔