قائداعظم شروع ہی سے متفکر تھے کہ برطانیہ، فلسطین میں یہودیوں کی ریاست کے قیام کے بعد فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کے منصوبے پر گامزن ہے۔ قائداعظم نے اس دو ریاستی نظریے کو مسترد کر دیا تھا۔ 1937میں قائداعظم نے یہ پیشکش کی تھی کہ اگر برطانیہ فلسطین کے بارے میں معقول پالیسی اختیار کرے تو اس کی بھرپور مدد کی جائے گی، بصورت دیگر ہندوستان کے مسلمان فلسطینیوںکے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے،جو قومی آزادی کے لیے جنگ کر رہے ہیں۔ قائد اعظم نے 1938 میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے پہلی مرتبہ یکجہتی فلسطین اور فلسطین فنڈ کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان کے قیام سے قبل 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ نے دو قراردادوں کو متفقہ طور پر منظور کیا تھا،ایک قیام پاکستان کے لیے جبکہ دوسری فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے لیے۔ پاکستان بننے کے بعد 1947 میں جب قائد اعظم پاکستان کے گورنر جنرل تھے تو اسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بن گوریان نے سفارتی تعلقات کے قیام کی خواہش پر مبنی ایک ٹیلیگرام قائد اعظم کے نام بھجوایا۔جس کا جواب قائداعظم نے سرکاری طور پر ان الفاظ میں دیا، “دنیا کا ہر مسلمان مرد و زن بیت المقدس پر یہودی تسلط کو قبول کرنے کے بجائے جان دے دے گا. مجھے توقع ہے کہ یہودی ایسے شرمناک منصوبوں میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ میری خواہش ہے کہ برطانیہ اور امریکا اپنے ہاتھ اٹھا لیں اور پھر میں دیکھوں کہ یہودی بیت المقدس پر کیسے قبضہ کرتے ہیں۔ عوام کی آرزوں کے خلاف پہلے ہی پانچ لاکھ یہودیوں کو بیت المقدس میں بسایا جا چکا ہے۔ میں جاننا چاہوں گا کہ کیا کسی اور ملک نے انہیں اپنے ہاں بسایا ہے۔۔؟ اگر تسلط قائم کرنے اور استحصال کا سلسلہ جاری رہا تو پھر نہ امن قائم ہوگا اور نہ جنگیں ختم ہونگی۔” قیام پاکستان کے بعد تقسیم فلسطین کے اقوام متحدہ کے فیصلے پر قائد اعظم نے تنقید کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ،” برصغیر کے مسلمان تقسیم فلسطین کے متعلق اقوام متحدہ کے ظالمانہ, ناجائز اور غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف شدید ترین لب و لہجے میں احتجاج کرتے ہیں. ظاہر ہے کہ برصغیر کے مسلمان امریکہ یا کسی اور ملک کی مخالفت مول نہیں لینا چاہتے،لیکن حس انصاف ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم فلسطین میں اپنے عرب بھائیوں کی ہر ممکن طریقہ سے مدد کریں۔” بی بی سی کو دیے گئے قائد کے اس انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کو بھی فلسطین کے مسئلے پر شریک جرم سمجھتے تھے،اس کے خلاف انہوں نے نہایت بے باکی سے صدائے احتجاج بلند کی۔ قائد اعظم کے پیش نظر ظلم کے خلاف انصاف کی حمایت تھی۔ قائد اعظم نے اسرائیل کے خلاف جو بیان دیا وہ ریکارڈ پر ہے۔”اسرائیل ایک ناجائز ریاست اور یہ مسلمانوں کے دل میں خنجرگھونپنے والی بات ہے جسے ہم تسلیم نہیں کریں گے۔”
قائداعظم نے نہ صرف اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف بیان دیئے بلکہ اسرائیل یوروشلم سینٹر فار پیس نے پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلق پر ایک مفصل تحقیق شائع کی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مئی 1948 میں اسرائیل کے قیام کے فورا بعد جب عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی تو امریکی حکام نے اسرائیل کو بتایا کہ پاکستان کے گورنر جنرل قائداعظم نے چیکوسلواکیہ سے ڈھائی لاکھ بندوقیں خرید کر لڑنے والے مجاہدین کو دیں اور اٹلی سے تین فوجی طیارے خرید کر مصر کو دئیے تا کہ وہ اسرائیل کے خلاف لڑ سکیں۔ یہ تھا قائد اعظم کا اسرائیل کے خلاف طرز عمل۔ انہوں نے ہمیشہ اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد کہا۔
مسلم امہ سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرلے لیکن اسرائیل پر کسی طرف سے کوئی دبا ڈالنے والا نہیں کہ وہ 1967 سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جائے۔ کشمیر اور فلسطین دونوں بڑے مسئلے ہیں،قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہاھے۔ ان دونوں مسئلوں کی پوزیشن تقریبا ایک ہی ہے۔کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں انڈیا اور اسرائیل دونوں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم اگر ایک مسئلہ پر لچک کا اظہار کریں گے تو آگے دوسرے مسئلے پر کھڑے رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں بچے گا۔پاکستان میں ایک لابی یہ لابنگ کر رہی ہے کہ پاکستان اسرائیل کو موجودہ حیثیت میں تسلیم کرلے، وہ ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں اور بالواسطہ کشمیر پر انڈیا کے قبضے کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین سے مسئلہ کشمیر بھی متاثر ہوگا ہمیں زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے فلسطینیوں اور کشمیریوں کے جائز حقوق اور امت مسلمہ کے مفاد کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ۔مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر دو ایسے اہم ترین مسائل ہیں کہ جن کے منصفانہ حل کے بغیر خطے سمیت عالمی امن کی ضمانت ناممکن ہے مسئلہ کشمیر و فلسطین برطانوی حکومت کی سیاسی چالبازیوں کا شاخسانہ ہیں۔ فلسطین و کشمیر پر صیہونیوں اور ہندوں کے قبضے کو عالمی برادری کی نظر میں ناجائز قبضہ تسلیم کیا گیا ہے۔لہذا موجودہ کشمیری و فلسطینی صورت حال پوری عالمی برادری کے لیے باعث تشویش ھے۔ بھارت اور اسرائیل دونوں ہی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
پاکستان کئی دہائیوں تک فلسطین کے مسئلہ پر قائداعظم کے نقطہ نظر پر قائم رہا لیکن بعد ازاں عالمی استعماری طاقتوں کے دبا کے نتیجے میں بعض ایسے اقدامات بھی کیے گئے جو قائداعظم کی حکمت عملی سے انحراف کی غمازی کرتے ہیں۔قائداعظم کی دانشمندانہ اور مبنی برحق حکمت عملی کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ ایک ظلم کو جائز تسلیم کرنا نئے ظلم کے لئے راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔پاکستان میں یہودی لابی کے حمایت یافتہ افراد اسرائیل کی حمایت کے لیے حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ پاکستانی قوم کو قائد اعظم محمد علی جناح کی فلسطینی پالیسی سے متعلق نظریئے سے آگاہی دی جائے۔قائداعظم نے اسرائیل کے بارے میں سخت موقف اپنایا تھا، وہ اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد کہتے تھے اور اس مغرب کی ناجائز اولاد کے حق میں کبھی کبھی میرے وطن کے ایک طبقے کو بے چینی رہتی ہے کہ اسے تسلیم کر لیا جائے۔ یہ طبقہ سمجھتا ہے کہ شاید پاکستان بدل چکا ہے یا اس کے عوام روشن خیال ہو چکے ہیں۔حالانکہ یہ ان کی خام خیالی ہے۔علامہ خادم رضوی صاحب کا جنازہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام قائد اعظم کے نظریات کے پہرے دار ہیں۔