’’میں بھی عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس‘‘

116

جس دن پاکستان کے اخبارات میں جنوبی وزیر ستان میں دہشت گردی کے واقعے میں سولہ پاکستانی جوانوں کی شہادت کی خبر شائع ہوئی عین اسی روز بھارت کے اخبارات میں وزیر داخلہ امیت شاہ کا یہ اعلان شائع ہوا کہ بھارت میں چار دہائیوں سے جاری شمال مشرقی ریاستوں کی شورش پسندی ختم ہوگئی ہے۔ امیت شاہ کے مطابق حکومت نے دس برس میں بیس امن معاہدے کیے۔ جس کے نتیجے میں شمال مشرقی ریاستوں کی شورش پسندی ختم ہوگئی۔ اب وقت پولیس اپروچ میں آگیا ہے تاکہ عوام کو تیزی سے انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ بیس امن معاہدوں کے نتیجے میں نو ہزار مسلح عسکریت پسندوں نے خود سپردگی اختیار کی۔ امیت شاہ کا کہنا تھا کہ ہمیں پولیس فورس کی اپروچ کو بدلنا چاہیے تاکہ ایف آئی آر کے اندراج کے تین سال کے اندر عوام کو انصاف مل سکے۔ بھارت کے وزیر داخلہ کی طرف سے ایک وسیع تر علاقے میں چار دہائیوں سے جاری مسلح شورش کے خاتمے کا اعلان بظاہر نریندر مودی کی حکمت عملی کی ایک کامیابی کا تاثر دینے کی کوشش ہے اور ابھی اس دعوے کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھنا باقی ہے۔ اگر بھارت شمال مشرقی ریاستوں کی شورش پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے کی پوزیشن میں آ ہی گیا ہے تو بھی یہ ایک اہم کامیابی ہے۔

بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں میں جاری نکسل باڑی تحریک ساٹھ کی دہائی سے چل رہی تھی۔ اس شورش کا آغاز ہی اس وقت ہوا تھا جب کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ماوسٹ اور لیننسٹ کے دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ ماوسٹ چیرمین ماو زے تنگ کے پیروکاروں جبکہ لیننسٹ ولادیمیر لینن کے پیروکاروں پر مشتمل تھے۔ ماونوا ز کمیونسٹوں نے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کو اپنا مرکز بنا کر سماجی ناہمواریوں کے خلاف گوریلا جنگ شروع کی۔ یہ جنگ بھارت کے لیے کئی لحاظ سے خطرناک تھی جس میں پہلی بات یہ تھی کہ جنگ کا محور ومرکز بھارت کی وہ سات ریاستیں تھیں جن کی سرحدیں چین اور میانمر سے ملتی تھیں اور دوسرا یہ کہ ان ریاستوں کو بھارت سے تنگ سی پٹی ہی ملاتی ہے یعنی اصل بھارت کے ساتھ ان کا جغرافیائی تعلق حد درجہ کمزور تھا۔ ماونواز باغیوں کے اثر رسوخ کا حامل علاقہ ریڈ کوریڈور کہلاتا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس ریڈ کوری ڈور کا دائرہ سکڑتا چلا گیا۔ یہ بھارت کا وہ نرم پیٹ تھا جس پر بھارت مخالف قوتوں کی نظر رہتی تھی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت نے اپنی اس کمزوری پر قابو پایا اور آج وہ اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ نکسل باڑی تحریک کے خاتمے کا اعلان کررہا ہے۔

سری لنکا بھی چھتیس برس تک تامل تحریک کی آگ میں جلتا رہا۔ تامل تحریک ہندوئوں پر مشتمل تھی جو سری لنکا کی اکثریتی سنہالی آبادی سے الگ ہو کر اپنا ملک بنانا چاہتے تھے۔ اس تحریک نے سری لنکا کو برسوں بدترین خانہ جنگی کا شکار بنائے رکھا۔ یہاں تک ایک بار تامل تحریک کو کنٹرول کرنے کے بہانے بھارت نے اپنی فوج جافنا اور دوسرے شہروں میں اُتاری مگر اسے اس قدر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ سال بھر میں اُلٹے پیروں بھاگنے میں ہی عافیت جان لی گئی۔ پاکستان اور چین اس شورش پر قابو پانے کے لیے سری لنکن حکومت کی مدد کرتے رہے۔ چھتیس برس بعد سری لنکن حکومت نے تامل ٹائیگرز کے خوں خوار لیڈر پربھاکرن کو مار کر اعلان کیا کہ ملک میں تامل تحریک کا خاتمہ ہو گیا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کا ایک بھوت افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے کے ساتھ ہی ناچنا شروع ہوا تھا۔ کابل میں پرچم اور خلق دھڑوں کے درمیان طاقت کا خونیں کھیل چلنا شروع ہوگیا تھا تو پاکستان میں بم دھماکوں کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ ایسی ہی ایک کارروائی میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دست راست حیات محمد شیرپائو قتل ہو گئے تھے جس کا الزام نیشنل عوامی پارٹی پر لگا کر اسے کالعدم قرار دیا گیا تھا اور خان عبدالولی خان سمیت اس کی لیڈر شپ کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔ سوویت افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد جوں جوں پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان کی لڑائی کو چارلی ولسن جیسے امریکی فنکاروں کی سرپرستی مل کر گلوریفائی کرتا چلا گیا تو جواب میں سوویت یونین اور کابل حکومت کی طرف سے پاکستان کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ ولی خان اکثر کہا کرتے تھے آپ ان کے لیے بم بھیجیں گے تو وہ جواب میں آپ کے لیے پھول بھیجیں گے کیا؟ بعد میں اس چیلنج نے ایک نیا رخ اس وقت اختیار کیا جب سوویت یونین افغانستان کو چھوڑ چلا تو امریکا نے پاکستان کو چھوڑ جانے کا فیصلہ کیا۔ اب جہادی پروجیکٹ کو ختم کرنے کا وقت تھا مگر امریکا اپنا بوریا بستر لپیٹ کر چلا گیا اور عسکریت پسندی کا سارا ملبہ پاکستان پر آن گرا۔ جنہیں برسوں لاڈ پیار سے مجاہد بنا کر رکھا گیا تھا انہیں سوئچ آف کرکے دہشت گرد قرار دیا گیا اور یوں کابل حکمرانوں اور سوویت فوجیوں کی جانب تنی ہوئی بندوق اپنے ہمدردوں اور معاونین کی جانب مڑ گئی۔

چارلی ولسن اپنا کام مکمل کرکے خطے سے جا چکا تھا مگر اس بدلے ہوئے نشانے کی زد میں پاکستان آگیا اور اب چھے دہائیاں ہونے کو ہیں پاکستان ایک کے بعد دوسرا فوجی آپریشن کرتا ہے مگر دہشت گردی ہے کہ ایک کے بعد

دوسرا نام بدل کر سامنے آتی ہے اور یہ سفر ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پاکستان جب بھی اپنی بنیادوں پر اس آشوب سے جان چھڑانا چاہتا ہے تو کبھی معاہدے کی تقریب پر ڈرون آگرتا ہے تو نیک محمد قتل ہوجاتا ہے اور کبھی اس آشوب کا مقامی حل نکالنے کی طرف بڑھتا ہے تو رجیم چینج ہوجاتی ہے اور یوں مفاہمت اور مصالحت کی ساری بساط ہی اُلٹ جاتی ہے۔ جنرل مشرف کے دور میں دہشت گردی کا منترا پڑھنے والے اکثر لوگ کہتے تھے کہ سری لنکا کو دہشت گردی پر قابو پانے میں تین دہائیاں لگیں اس لیے پاکستان کو صبر سے اس عفریت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس طرح وہ بتاتے تھے کہ فی الحال پاکستان کے پاس شورش سے نبٹنے کا کوئی پرامن آپشن نہیں اسے بہرطور لڑتے رہنا چاہیے۔ اب پاکستان کو اس عفریت سے لڑتے ہوئے دہائیاں گزر گئیں مگر سرنگ کے دوسری طرف اب بھی روشنی کے کوئی آثار نہیں سوائے اس کے اب دہشت گردوں کو ہم نے خوارج کا نیا نام دے دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ بیرونی فورسز پاکستان کو اس دردِسر کا کوئی دیسی اور ’’میڈ اِن پاکستان‘‘ حل نکالنے سے روکتی ہیں اور نتیجے کے طور پر پاکستان ایک کے بعد دوسرے آپریشن کی دلدل میں پائوں رکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔ دس برس میں بیس معاہدے کرکے ماونواز باغیوں کے عذاب سے جان چھڑانے سے بھارت کی انا اور عزت پر کوئی حرف نہیں آیا تو پاکستان پر بھی بلوچ اور قبائلی علاقوں کی شورش کا دیسی حل نکالنے سے عزت اور انا کا کوئی آسمان ٹوٹ گرنے کا خطرہ نہیں مگر ا س کا کیا کیجیے کہ اس معاملے میںجون ایلیا اپنا ہی شعر گنگناتے ہوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔

میں بھی بہت عجیب ہوں، اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کردیا اور ملال بھی نہیں