حضرت ابوبکرصدیقؓ کا یوم وفات سرکاری سطح پر منایا جائے،علماء مشائخ

151

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)علما مشائخ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اسلامی ریاست پاکستان میں اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، عشرہ مبشرہ میں شامل، خاتم النبین محمد مصطفیﷺ کے اولین جانشین، صحابی، خسر اور ہجرت مدینہ کے وقت رفیق سفر حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یوم وصال 22جمادی الثانی 25دسمبر کو سرکاری طور پر عقیدت و احترام سے منانے کا اعلان کرے کیونکہ انبیا اور رسولوں کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر، صحابہ میں ایمان و زہد کے لحاظ سے سب سے برتر اور ام المومنین عائشہ بنت ابوبکر رَضی اللہُ تعالیٰ عنہا کے بعد پیغمبر اسلام ﷺ کے محبوب تر تھے،ملک بھر کے علما مشائخ کی نمائندہ تنظیم علما مشائخ فیڈریشن آف پاکستان کے زیر اہتمام ملک بھر میں حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کا یوم وصال 22جمادی الثانی 25دسمبر کو عقیدت و احترام سے منایا جائیگا،ملک بھر کے علما مشائخ کی نمائندہ تنظیم علما مشائخ فیڈریشن آف پاکستان کے سر براہ سفیر امن پیر صاحبزادہ احمد عمران نقشبندی مرشدی سجادہ نشیں آستانہ عالیہ بھیج پیر جٹا نے حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کے یوم وصال کے حوالے سے منعقدہ اجتماع سے خطاب میں کہا کہ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ خود جس خلوص و محبت سے حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے، وہ اپنی مثال آپ ہے، مگر اس کے بعد عمر بھر آپ نے جس طرح رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیا، وہ بھی اپنی مثال آپؓ اور آپؓ کی صد یقیت پر شاہد ہے،ابوبکر صدیقؓ تمام غزوات میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ شامل، شانہ بشانہ شریک رہے اور اپنی بہادری و جاں نثاری کا پورا پورا ثبوت دیا، حضرت ابوبکر صدیق رَضی اللہُ تعالیٰ عنہُ کی تصدیق و تائید کی بنا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صدیق کا لقب دیا تھا،انہوں نے کہا کہ خاتم النبیینﷺ نے اپنی حیاتِ مقدسہ کے آخری ایام میں حضرت ابوبکرؓ کو اپنی جگہ جانشین بناکر اپنے مصلّے پر نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا،لہٰذا آنحضرتﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرات صحابہ کرامؓ نی متفقہ طور پر آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح آپ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ مقرر ہوئے۔اس کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے منبر پر بیٹھ کر ایک مختصر مگر فصیح و بلیغ خطبہ دیا۔ ارشاد فرمایا کہ لوگو، اللہ کی قسم نہ میں کبھی امارت کا خواہاں تھا، نہ اس کی طرف مجہے رغبت تھی اور نہ کبھی میں نے خفیہ یاظاہراً اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے دعاکی،لیکن مجہے خوف ہواکہ کوئی فتنہ نہ برپاہوجائے، اس لیے اس بوجھ کو اٹھا نے کے لیے تیار ہوگیا، امارت میں مجہے کوئی راحت نہیں، بلکہ یہ ایسابوجھ مجھ پر ڈالا گیا ہے کہ جس کی برداشت کی طاقت میں اپنے اند رنہیں پاتا اور اللہ کی مدد کے بغیر یہ فرض پورا نہیں ہوسکتا۔ کاش میری بجائے کوئی ایساشخص خلیفہ مقرر ہوتاجو اس بوجھ کو اٹھانے کی مجھ سے زیادہ طاقت رکھتا،مجھے تم نے امیر بنایا،حالانکہ میں تم میں سی بہتر نہیں ہوں، اگر اچھاکام کروں تو میری مدد کرنا اور غلطی کروں تو اصلاح کرنا۔جب تک میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں،تم میری اطاعت کرنا اور اگر میں ان کیخلاف کروں تو میرا ساتھ چھوڑدینا‘‘۔آپؓ نے اپنے مختصر دور خلافت میں جو روشن نقوش ثبت کیے، وہ قیامت تک محو نہیں ہوسکتے۔ نظام خلافت، ملکی نظم و نسق،حکام کی نگرانی، نفاذ حدود و تعزیر، فوجی و مالی انتظامات، بدعات کا سدباب، خدمت حدیث، اشاعت اسلام، جمع و ترتیب قرآن ایسے لازوال کارنامے ہیں جو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں اور انسانیت کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔اجتماع سے پرو فیسر ڈاکٹرجلال الدین نوری، پیر سید محمد خرم شاہ جیلانی،پروفیسر ڈاکٹر علامہ سعیدسہروردی،پروفیسر ڈاکٹرمہربان نقشبندی ایڈووکیٹ سپریم کورٹ،پروفیسر ڈاکٹر علامہ ضیا الدین،پر و فیسر علامہ ڈاکٹر محمود عالم خرم آسی جہانگیری، مولانا سلمان بٹلہ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔