کراچی (کامرس رپورٹر)نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولزفورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی ائی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اورسابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاور بیوروکریسی منظم انداز میں شمسی توانائی کے ڈومیسٹک، کمرشل اورانڈسٹریل صارفین کی حوصلہ شکنی کررہی ہے جوافسوسناک ہے۔ بجلی کی ناقابل برداشت قیمتوں کی وجہ سے عوام اور کاروباری برادری میں شمسی توانائی استعمال کرنیکا رجحان بڑھ رہا ہے مگر پاورڈسٹری بیوشن کمپنیاں اس سلسلہ میں تعاون کے بجائے روڑے اٹکا رہی ہیں تاکہ انکی دوکانداری چلتی رہے۔ میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گھریلوصارف کوایک گرین میٹر لگانے کے لئے چالیس سے ساٹھ ہزار تک اضافی اخراجات دینا پڑتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق سنگل فیز میٹر کی ریڈنگ فرنٹ سے لی جاتی جس میں استعمال شدہ یونٹ صاف نظرآتے ہیں ہے جبکہ گرین میٹرکی ریڈنگ کے وقت کیمرہ ترچھا کردیا جاتا ہے تاکہ ریڈنگ واضح نظرنہ آئے تاکہ صارف کو باآسانی دھوکے میں رکھا جاسکے۔ سولرصارفین کے انورٹرکی بجلی کی پیداوار اورپاورکمپنی کی جانب سے بتائی جانے والی پیداوار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے جس میں نقصان ہمیشہ صارف کاہی ہوتا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ گرین میٹر کی بلنگ کا نظام اتنا پیچیدہ رکھا گیا ہے جسے سمجھنا ننانوے فیصد صارفین کے لئے ناممکن ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ مختلف پاور ڈسٹریبیوشن کمپنیوں کے افسران صنعتی صارفین کو شمسی توانائی کی اجازت دینے میں چھ سے آٹھ ماہ لگا دیتے ہیں جبکہ کئی کیس تو سالہا سال سے لٹکے ہوئے ہیں۔ اسی طرح جوصنعتی صارفین شمسی توانائی استعمال کر رہے ہیں انھیں پاور جنریشن میں توسیع کی اجازت بھی نہیں دی جاتی اور وہ مجبور ہوکرازخود سولرپلیٹوں میں اضافہ کرتے ہیں انھیں چھاپے اور بجلی کی ڈس کنکشن بھگتنا پڑتی ہے جس سے کاروبار تباہ ہو جاتے ہیں۔