جاپان میں صنفی عدم مساوات کے معاشرتی اثرات

273

ہم جس دنیا میں رہتے ہیں اسے پی آر کی دنیا کہا جاتا ہے، یہ اصطلاح صرف افراد، اداروں اور حکومتوں سے روابط استوار کرنے کا نام نہیں بلکہ کسی بھی سطح پر آپ کی شخصی، کاروباری اور سیاسی ساکھ کو اجاگر کرنے کے حوالے سے تیار کردہ کمپین کا نام ہے جو کسی خاص واقعے سے قبل یا تبدیلی کے عمل سے پہلے مضبوط موقف کی صورت میں تیار کیا جاتا ہے جس سے رائے عامہ ہموار ہوسکے۔ جاپان میں صنفی امتیاز کا مسئلہ بھی ایک ایسی ہی پی آر کمپین کی جانب اشارہ کرتا نظر آرہا ہے جو کسی بڑی تبدیلی کی پیش بندی کررہا ہے اور جسے مغرب نے بڑے منظم پیمانے پر لانچ کیا ہے تاکہ مستقبل کا منظر نامہ ترتیب دیا جا سکے۔ جاپان اپنی ثقافتی وراثت، مضبوط معیشت، اور اعلیٰ ٹیکنالوجی کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ تاہم صنفی مساوات کے حوالے سے اس ترقی یافتہ ملک کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ سیاست سے کاروبار اور تعلیم سے شاہی خاندان کے نظام تک، صنفی عدم مساوات کو جاپان کے سماجی ڈھانچے میں گہرائی تک پیوست دکھائے جانے کی یہی وہ کمپین ہے جو پوری توانائی سے چلائی جارہی ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ اس مضمون میں فرداً فرداً اس کمپین کے تحت بنائے گئے بیانیے کے مختلف اہداف کا جائزہ لیں۔ اس کمپین کو محض ایک کنسپائریسی تھیوری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس کے پس پشت چند ایسے تلخ حقائق بھی ہیں جن سے جاپانی معاشرہ دنیا کا مہذب ترین معاشرہ ہونے کے باوجود نبرد آزما ہے۔ اسی بیانیے کا ایک پہلو شاہی تخت نشینی میں صنفی امتیاز سے متعلق ہے جاپان کے شاہی خاندان کا نظام دنیا کے قدیم ترین بادشاہتی نظاموں میں شمار ہوتا ہے، لیکن یہاں بھی صنفی امتیاز نمایاں نظر آتا ہے۔

جاپان کے قدیم جاگیرداری دور میں، خواتین بادشاہ یا ملکائیں جاپانی تاریخ کا حصہ رہی ہیں۔ مثلاً، ملکہ سوئیکو (593-628) اور ملکہ گینمیو (707-715) جیسی حکمرانوں نے جاپان پر حکمرانی کی۔ لیکن 1889 میں نافذ کیے گئے میجی آئین نے خواتین کو شاہی تخت کے حق سے محروم کر دیا، اور صرف مرد وارثین کو تخت نشینی کا حق دیا گیا۔ اس ضمن میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شاہی تخت نشینی میں خواتین کی عدم موجودگی جاپان کے صنفی امتیاز کی عکاسی کرتی ہے جبکہ میجی آئین کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ نظام جاپانی روایات اور ثقافت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ یہ بحث فی زمانہ اس لیے زیادہ زور پکڑ چکی ہے کہ شاہی تخت کے لیے فوری طور پر کوئی نرینہ امیدوار منظر پر نظر نہیں آرہا اور شہزادی آئیکو کی تخت نشینی کے حق میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گفتگو کرتی نظر آرہی ہے۔ شاہی تخت کے نرینہ وارث کی نامزدگی کو ناقدین ایک دقیانوسی روایت قرار دیتے ہیں جو جدید جاپان کے مساوات کے اصولوں کے خلاف ہے، لیکن میجی دور کے آئین کے تحت شاہی خاندان کے قوانین خواتین کو مساوی حیثیت دینے سے انکار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ شاہی خاندان کی خواتین شادی کے بعد اپنا شاہی درجہ کھو دیتی ہیں، جبکہ مردوں کو یہ استحقاق حاصل رہتا ہے۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس رویے سے خواتین کی سماجی حیثیت مزید کمزور ہوتی ہے اور جدید دور کا یہ تقاضا ہے کہ شاہی تخت نشینی کے قوانین میں ترمیم کر کے خواتین کو تخت کا حق دیا جائے۔ اس موقف کے حامی دیگر ممالک کی مثالیں دیتے ہیں جیسے کہ برطانیہ جہاں خواتین کو بادشاہت کا برابر حق حاصل ہے۔

صنفی امتیاز کا یہ مسئلہ صرف شاہی خاندان تک محدود نہیں بلکہ یہ رجحان جاپانی سیاست میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ جاپان میں سیاست کو مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے، جہاں خواتین کی نمائندگی محدود ہے۔ جیسے کہ رواں سال 2024 کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی 15.7 فی صد تک پہنچ گئی، جو کہ ریکارڈ ہونے کے باوجود عالمی معیار سے بہت کم ہے۔ جاپان ورلڈ اکنامک فورم کے صنفی فرق کے انڈیکس میں 146 ممالک میں 118 ویں نمبر پر ہے، اور جی 7 ممالک میں سب سے نیچے ہے۔ خواتین کے حوالے سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہیں جاپانی سیاست میں کئی ناخوشگوار تجربات کا سامنا بھی کرنا پڑا ان خواتین سیاستدانوں میں میکو ناکاگاوا بھی شامل ہیں جن کے مطابق پارلیمنٹ میں خواتین سیاستدانوں کو نازیبا تبصروں کا سامنا ہے، جو ان کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح سیومی میورا کیس کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے جنہیں مسلسل ہراسانی کے باعث سیاست کا میدان چھوڑنا پڑا، جو جاپانی معاشرے میں صنفی امتیاز کی شدت ظاہر کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں زیادہ تر مرد امیدواروں کو ترجیح دیتی ہیں، اور خواتین کو وسائل اور تعاون فراہم نہیں کیا جاتا۔ ماہرین سیاست کوٹا سسٹم کو اس مسئلے کا ایک حل بتاتے ہیں ان کے مطابق صنفی اعتبار سے کوٹا سسٹم متعارف کرانے اور سخت قوانین کے ذریعے سیاست میں خواتین کی شمولیت کو بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس پی آر کمپین کے تحت دیگر شعبہ جات میں بھی خواتین کے ساتھ ہونے والی تفریق کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس بیانیے کے مطابق کاروباری شعبے میں بھی صنفی عدم مساوات جاپان کی ترقی پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں جو بڑی مثال دی جاتی ہے وہ ٹوکیو اسٹاک ایکسچینج کی ہے جہاں جاپان کی بڑی کمپنیوں میں صرف 15 فی صد خواتین اعلیٰ عہدوں پر ہیں۔ اسی طرح بتایا جاتا ہے کہ نسان اور سونی جیسے اداروں میں خواتین کی قیادت کو فروغ دینے کے اقدامات صرف علامتی ہیں، اور عملی طور پر کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اس بیانیے کے حامی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان کی معیشت صنفی عدم مساوات کی وجہ سے اپنی مکمل صلاحیت سے استفادہ نہیں کر پا رہی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر خواتین کو قیادت کے برابر مواقع دیے جائیں، تو جاپان کی معیشت میں 10 فی صد اضافہ ممکن ہے۔ اس سلسلے میں مندررجہ ذیل سفارشات پیش کی جارہی ہیں۔ 1) کمپنیاں صنفی مساوات کے لیے مخصوص اہداف مقرر کریں۔ 2) خواتین کے لیے تربیتی پروگرامز اور دوستانہ انداز میں کام کا ماحول فراہم کیا جائے۔

اس کمپین کے ہدف تنقید کا شکار تعلیمی شعبہ بھی ہے۔ جہاں ان کے مطابق صنفی امتیاز کا مسئلہ جاپان کی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ اس سلسلے میں ٹوکیو میڈیکل یونیورسٹی اسکینڈل کا حوالہ دیا جاتا ہے، جو 2018 میں اس وقت سامنے آیا، جب یونیورسٹی نے خواتین طلبہ کے نمبروں میں جان بوجھ کر کمی کی تاکہ مرد طلبہ کو داخلے میں ترجیح دی جا سکے۔ اسی طرح اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کی کمی جاپانی تعلیمی نظام کی صنفی عدم مساوات کو مزید نمایاں کرتی ہے۔ جاپان میں اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے کئی تنظیمیں اور تعلیمی ادارے اس فرق کو کم کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، مثلاً خواتین کے لیے خصوصی پروگرامز اور اسکالر شپس وغیرہ۔ اس تمام صورت حال کا مرکزی نقطہ خواتین کے حوالے سے جاپان کی ایک ایسی تصویر کشی ہے جہاں صنفی امتیاز کے خاتمے کے لیے راہ ہموار کرکے ان تمام شعبوں تک خواتین کی رسائی کا انتظام کرنا ہے جہاں تاحال خواتین کے لیے رسائی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔