سول نافرمانی کی تحریک بھی ایک آپشن ہے

200

عمران خان صاحب ’’سول نافرمانی کی تحریک‘‘ چلانے کی بات کیوں کررہے ہیں، اِس کی بہتر وضاحت پی ٹی آئی کا ترجمان ہی کرسکتا ہے، البتہ سول نافرمانی کی تحریک کی بات کیوں کررہے ہیں اس کی وضاحت ہم خود کیے دیتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے سارے کام غلط کیے مگر اُس کا یہ نعرہ بہت ٹھیک تھا کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ اب اگر اِس نعرے کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو یقینا یہ نعرہ اُن تمام قربانیوں اور توقعات کا بھی احاطہ کیے ہوئے ہے کہ جو قیام پاکستان کے وقت تحریک پاکستان میں شامل مسلمانوں نے دیں یا رکھیں۔ سب سے پہلے پاکستان کا نظریہ یا جذبہ اُن تمام فیصلوں اور اقدامات کے خلاف ہے کہ جن سے پاکستان کو کسی بھی حولے سے کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست کو ہر طرح کے بیرونی اور اندرونی خطرات سے بچانے کے لیے ’’گڈ گورننس‘‘ کا وجود ضروری ہے جبکہ یہ بات بھی پاکستان سمیت دنیا بھر کے طرزِ حکمرانی سے ثابت ہے کہ بدعنوان حکمران کبھی بھی بدعنوانی کو روک نہیں سکتے۔ دیانت دار قیادت کے بغیر قومی خزانہ جو کہ عوام کی امانت ہے اُس کی حفاظت نہیں کی جاسکتی۔

پاکستان آزادی کے 77 برسوں میں ہر طرح کے تجربات سے گزر چکا، بعض اوقات اچھی شہرت کے حامل اور دیانت دار حکمران بھی برسراقتدار آئے مگر وہ بھی اِس نظام کا کچھ نہیں بگاڑ سکے کہ جس کی بنیاد کرپشن، ناانصافی اور بدعنوانی پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے مزید جلی پر تیل کا کام کیا۔ فوجی حکمران بھی جب ناکام ثابت ہوئے تو عوام نے پلٹ کو جمہوری حکمرانوں کی طرف دیکھا مگر اقتدار میں آنے کے بعد یہ بھی بھیڑیے ثابت ہوئے۔ عوام پر کسی نے ترس نہیں کھایا۔ ہاں البتہ ہر حکمران سیاسی جماعت نے اپنے اپنے کارکنوں کو خوب نواز۔ دور کی مثال دینے کے بجائے نزدیک کا منظر ہم سب کے سامنے ہے۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتیجے میں جو اسمبلیاں وجود میں آئیں اور جن صاحبان کو حکومت کے تخت پر بٹھایا گیا ان سب نے عوام کو مایوس کیا۔ منتخب ایوانوں میں وہ سب کچھ ہورہا ہے جس سے پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں اور وہ سب کچھ بالکل نہیں ہورہا کہ جس سے عوام کو کوئی ریلیف ملے۔ مہنگائی، بے روزگاری، اقربا پروری، لاقانونیت سمیت کرپشن اور بدعنوانی نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ نظام انصاف رینگ رہا ہے، عدلیہ کانپ رہی ہے، فریادی چیخ رہا ہے، اور مجرم آنکھ بچا کر نکلے جارہے ہیں۔ اسمبلیوں میں ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے سرگوشیاں جبکہ حکومت کے ایوانوں میں سازشی سر جوڑے بیٹھے ہیں۔ جمہوریت کا صرف نام ہے کام سب غیر جمہوری ہیں۔ انسانی حقوق کا معاملہ طاقتور وڈیرے، بے رحم پولیس اور کمزور عدلیہ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ دہشت گردی کا بڑا شور ہے مگر عملاً اربوں روپے کے اخراجات کے باوجود ریاستی ادارے دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکام ہیں۔ سندھ میں کچے کے ڈاکو، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں دہشت گردوں کی مارا ماری، کرم ایجنسی میں خونریزی سمیت ہر دیہات اور شہر کو دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے قانون کی بالادستی دم توڑ چکی ہے۔ درجنوں ادارے پاکستان کی سرحدوں اور عوام کی حفاظت پر مامور ہیں مگر پھر بھی اسمگلنگ جاری اور اسمگلرز محفوظ ہیں۔ کرپشن کو روکنے کے لیے بھی بہت سارے محکمے موجود اور سرگرم ہیں مگر پھر بھی کرپشن کا نیٹ ورک محفوظ اور مضبوط ہے۔ اُوپر سے نیچے تک بڑی خاموشی کے ساتھ کرپشن کا مال ایک جیب سے دوسری جیب میں منتقل ہوجاتا ہے۔ آئینی اور قانونی ترامیم کے ذریعے اِحتساب اور نیب کے خوف کو ختم کردیا گیا ہے، بنیادی حقوق کا تحفظ کا دعویٰ محض دعویٰ ہے، اپوزیشن کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جارہا ہے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی پر بہت سے سنجیدہ سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ اداروں کے سربراہوں کے پروموشن، مدت ملازمت اور تعیناتی وغیرہ کے بارے میں بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ طاقت کا سر چشمہ عوام نہیں خواص بن گئے۔ بیرونی قرضہ اور اِس پر ادا کیا جانے والا سود اِس تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ شاید مزید 100 سال تک بھی کشکول ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔ خود انحصاری اور سادگی پر کوئی توجہ نہیں۔ نیب زدہ حکمرانوں نے اپنے وزرا کی تنخواہوں کئی سو فی صد اضافہ کردیا ہے، گورنر اور وزرائے اعلیٰ صاحبان کے پاس لگژری گاڑیاں اور جہاز ہیں کہ جن کے سالانہ اخراجات اس قدر ہیں کہ اگر وہ غریب شہریوں میں تقسیم کردیے جائیں تو درجنوں خاندان آباد ہوجائیں گے۔ بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کی طاقت نہ رکھنے والے غریب عوام پر ظالم، بے رحم، بددیانت اور عیاش حکمران مسلط ہیں جو عوام میں ریوڑھیاں بانٹ کر خود لڈو کھا رہے ہیں۔

بہرحال سب سے قابل توجہ اور تشویش ناک بات یہ ہے کہ ملک میں انصاف اور رحم نہیں ہے۔ انصاف ہوگا تو جرم ختم اور ہر طرف اطمینان ہوگا اور اسی طرح سے جب رحم اور درگزر سے کام لیا جائے گا تو ہر طرف محبت اور بھائی چارہ بڑھے گا۔ بے رحم طاقت کے استعمال اور ناانصافیوں پر مبنی پالیسیوں سے پاکستان میں امن، ترقی اور خوشحالی ممکن نہیں جبکہ اس طرح کی صورت حال میں 25 کروڑ عوام کا گزارہ اور اطمینان بہت مشکل ہے۔ موجودہ حکمرانوں سے خیر کی توقع نہیں یہ جب تک اقتدار میں رہیں گے عوام کے لیے مسائل اور اپنے لیے وسائل پیدا کرتے رہیں گے۔ تعلیم اور صحت سے لے کر معاشی پالیسیاں تک ناکام ہیں۔ خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ عزت دار اور غیرت مند قوم کے تعارف کو بحال کرنے کے لیے ’’انقلابی فیصلے‘‘ کرنا ہوں گے۔ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتیجے میں نیب زدہ حکمرانوں کے اقتدار کو مزید برداشت کرنا ملک اور قوم کے مفاد میں نہیں، لہٰذا ’’مافیا کے اقتدار‘‘ سے عوام کی جان چھڑانے کے لیے ’’سول نافرمانی کی تحریک‘‘ بھی ایک آپشن ہے۔ جس پر اپوزیشن کی تمام دینی اور سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر غور کرنا چاہیے۔ اللہ پاک وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین