حکومت، پی ٹی آئی مذاکرات

197

حکومت اور پاکستان تحریک ِ انصاف کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور مکمل ہوگیا، ان مذاکرات سے ملک کے سیاسی افق پر تناؤ، اضطراب اور سراسیمگی کی جو فضاء چھائی ہوئی تھی اس میں کچھ کمی کے امکانات روشن ہوئے ہیں، یہ ایک خوش آئند قدم ہے، حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا پہلا رائونڈ پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا جس کی سربراہی اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کی، مذاکرات میں حکومتی اتحاد کی جانب سے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار، عرفان صدیقی، رانا ثناء اللہ، نوید قمر، راجا پرویز اشرف اور فاروق ستار شامل ہوئے جبکہ اپوزیشن کی طرف سے اسد قیصر، حامد رضا، علامہ ناصر عباس مذاکراتی کمیٹی کا حصہ تھے۔ ذرائع کے مطابق حکومت اور اپوزیشن مذاکراتی کمیٹی نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا اور کمیٹی کا آئندہ اجلاس 2 جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا گیا، ذرائع نے بتایا کہ آئندہ اجلاس میں اپوزیشن مطالبات کی فہرست پیش کرے گی، قبل ازیں اسپیکر ایاز صادق نے مذاکراتی کمیٹی کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ مسائل کو مذاکرات سے حل کرنے کے حوالے سے وزیراعظم کا اقدام خوش آئند ہے، نیک نیتی سے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے، بات چیت اور مکالمے ہی سے آگے بڑھا جاسکتا ہے، مذاکرات کا عمل آگے بڑھانے کے لیے مذاکراتی کمیٹی کو کھلے دل سے آگے بڑھنا ہوگا، ادھر تحریک ِ انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا کہنا تھا کہ حکومتی کمیٹی سے یہ ابتدائی ملاقات تھی اور باقاعدہ مذاکرات 2 جنوری 2025 سے شروع ہوں گے جب کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے بھی حکومتی مذاکراتی کمیٹی کی تشکیل کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان مذاکرات کا آغاز ایسے وقت میں ہورہا ہے کہ سیاسی بے یقینی، افراتفری اور انارکی سی کیفیت چھائی ہوئی ہے، ملک اور قوم کا درد رکھنے والا ہر دردمند پاکستانی اضطراب کا شکار ہے، یہ مذاکرات ملک میں سیاسی استحکام کے فروغ کی جانب ایک مثبت قدم ہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی تحریک انصاف سے مذاکرات کے لیے اپنی اتحادی جماعتوں کے ارکان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے کر ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ یہ مذاکرات بہت پہلے ہی شروع ہو جانے چاہیے تھے مگر حکومت نے مذاکرات کے بجائے پی ٹی آئی کے خلاف قانونی کاررائیوں اور سخت اور بے لچک رویہ اختیار کرنے کو ترجیح دی، اور یہ شدت 9 مئی کے واقعات کے بعد مزید زور پکڑ گئی جب پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا اور یہ الزام عاید کیا گیا کہ پی ٹی آئی احتجاج کے نام پر ریاست کو کمزور اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی راہ پر گامزن ہے، جب کہ پی ٹی آئی رہنماؤں کے لب و لہجے نے بھی سیاسی فضا کو مکدر کیے رکھا، افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے ریاستی اداروں کے خلاف سخت بیانات دیے گئے اور سول نافرمائی کی تحریک کا عندیہ دے کر اعتماد کی فضا قائم ہی نہیں ہونے دی گئی، جب کہ خود عمران خان نے بھی سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے باربار یہی کہتے رہے کہ وہ صرف ’’بااختیار‘‘ حلقوں ہی سے مذاکرات کریں گے، وہ خود مذاکرات پر آمادہ نہیں تھے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ تنازع کے حل کے لیے فریقین نے اپنا وہ جمہوری کردار ادا نہیں کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا، سیاسی اختلا ف دنیا میں کہاں نہیں ہوتے؟ لیکن اس اختلاف کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو طاقت سے زیر کرنا اور خنجر لہرا کر قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف منظم منصوبہ بندی کے ساتھ صف آرا ہونا کون سا جمہوری طرز عمل ہے؟ معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کرنے کے بجائے سیاسی کشیدگی کو فروغ دینے کا نقصان کس کو ہوا؟ حکومت اپوزیشن کے لڑائی میں بے چارے عوام پِس کر رہ گئے اور نوبت بایں جا رسید! کہ معاشی بحران شدت اختیار کرگیا، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا جس سے عوام کے مسائل و مشکلات میں مزید اضافہ ہوا، روپے کی قدر اور سرمایہ کاری میں کمی ہوئی، ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہوئے۔ اس صورتحال سے عوام اور ملکی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ اپنی جگہ پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، اب جب کہ برف کے پگھلنے کا آغاز ہوا ہے تو ایسے میں مذاکرات کی کامیابی اور سیاسی و معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہے کہ فریقین سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، حکومت سیاسی کارکنوں پر قائم دہشت گردی کے مقدمات ختم کرے، نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف فوجی عدالتوں سے مقدمات خارج کرے، جوڈیشل کمیشن قائم کرکے آئین و قانون کے تحت سیاسی اسیروں پر قائم مقدمات کا فیصلہ کیا جائے، تحریک انصاف کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر غور کرے اپنے لب و لہجے پر تہذیب، شائستگی اور اخلاق کی مہر ثبت کرے، مجوزہ سول نافرمانی کی تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کرے، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سیاسی میدان کو رومی کولوزیئم میں تبدیل کر کے سیاسی رہنماؤں کو گلیڈی ایٹر کا کردار سونپنے کا عمل اب بند ہونا چاہیے یہ طرز عمل ملک میں جمہوری کلچر کو فروغ دینے کا نہیں اس کی بیخ کنی کا ہے۔