اردن کے وزیر خارجہ کا دورہ شام، نئی انتظامیہ سے ملاقات

89
minister visits Syria, meets with new administration

دمشق: اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفدی نے پیر کو شام کے نئے حکمران احمد الشراع سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات دو ہفتے قبل بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد خطے میں نئی انتظامیہ سے تعلقات مضبوط کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

ایمن صفدی نے الجزیرہ کو بتایا، “ہم اپنے شامی بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ وہ تعمیر نو کے عمل کا آغاز کر رہے ہیں، اردن ایک مستحکم، محفوظ اور پرامن شام دیکھنا چاہتا ہے جو اپنے عوام کے حقوق کی ضمانت دے اور عوامی امنگوں کے مطابق عبوری عمل کو آگے بڑھائے۔

قطر کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور محمد الخلیفائی بھی دمشق پہنچے۔ قطر نے 13 سال بعد دمشق میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولا ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے کہا کہ الخلیفائی شام کے حکام سے ملاقاتیں کریں گے تاکہ شامی عوام کو قطر کی مستقل حمایت کا اظہار کیا جا سکے۔

ایک روز قبل ترکی کے وزیر خارجہ حاکان فدان نے بھی شامی حکام سے ملاقات کی اور سیاسی تبدیلی اور تعمیر نو کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔ انہوں نے بین الاقوامی پابندیوں کے خاتمے پر زور دیا۔

صفدی نے شامی سرحد کے ساتھ استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا، “ہم 375 کلومیٹر کی سرحد کو دہشت گرد تنظیموں، منشیات اور اسلحہ کی اسمگلنگ سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔” اردن حالیہ برسوں میں اپنی سرحدوں پر منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہا ہے، خاص طور پر کیپٹاگون نامی منشیات کی روک تھام کے لیے جو خلیجی ممالک میں بہت زیادہ مانگ رکھتی ہے۔

اردن کے وزیر خارجہ نے حالیہ دنوں میں شام پر اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں شام کی خودمختاری پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا، “اسرائیل کو 1974 کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئے شام کی سرزمین سے نکل جانا چاہیے۔”الشراء کی قیادت میں شامی انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں کئی ممالک کے سفیروں اور حکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ خطے میں طاقتور سعودی عرب بھی جلد ہی ایک وفد بھیجنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دوسری جانب ایران نے شام کی خودمختاری کے تحفظ پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام کو دہشت گردی کی آماجگاہ نہیں بننے دینا چاہیے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، “شامی عوام کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا چاہیے، بغیر کسی تخریبی غیر ملکی مداخلت کے۔”یہ ملاقاتیں خطے میں امن و استحکام کے قیام اور شامی عوام کی مشکلات کو کم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں، جنہیں گزشتہ 13 سال کی جنگ نے بری طرح متاثر کیا ہے۔