اسلام آباد ( نمائندہ جسارت)پی ایف یوجے ڈیموکریٹس کا اجلاس‘ صحافیوں کی عالمی تنظیم آر ایس ایف کے پاکستان میں صحافیوں سے متعلق رپورٹ پر تشویش کا اظہار‘ اجلاس کی صدارت صدر محمد طیب نے کی جبکہ محسن خان جنجوعہ‘ توحید راجا‘ لاہور سے نصیر احمد‘ کوئٹہ سے نعمت اللہ
خان‘ کراچی سے شمیم احمد اور پشاور سے عرفان نے شرکت کی‘ اجلاس میں بتایا گیا کہ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بورڈر (آر ایس ایف) نے بھی اپنی رپورٹ جاری کی ہے اور سی پی جے بھی مسلسل صحافیوں کو درپیش خطرات سے آگاہ کر رہا ہے۔آر ایس ایف کی حالیہ رپورٹ میں پاکستان کو غزہ کے بعد صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ قرار دیا گیا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ غزہ میں تو جنگ کی صورت حال ہے لیکن کیا پاکستان میں بھی جنگ ہو رہی ہے؟ صحافیوں کو ظلم ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،کوئی شنوائی بھی نہیں ہے۔ حکومت اور نہ ہی عدالتیں صحافیوں کو انصاف دینے میں دلچسپی رکھتی ہیںبہت سے صحافیوں کے اہل خانہ وسائل نہ ہونے یا خوف کی وجہ سے چپ سادھ لیتے ہیں، دارالحکومت ہی صحافیوں کے لیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ ٹرولز صحافیوں کو لفافہ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں، 2024 میں مارچ میں رحیم یار خان میں صحافی جام صغیر احمد کو قتل کیا گیا۔ اپریل میں پاک پتن سے تعلق رکھنے والی صحافی نوشین رانا کی مسخ شدہ لاش ملی۔ یوم صحافت تین مئی کو صحافی محمد صدیق مینگل کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا۔ وہ خضدار پریس کلب کے صدر تھے۔مئی ہی کے مہینے میں صحافی اشفاق سیال کو مظفر گڑھ میں قتل کر دیا گیا۔ مئی کے مہینے میں ہی شمالی وزیرستان میں صحافی کامران داوڑ کو نشانہ بنایا گیا اور صحافی نصراللہ گڈانی کو گھوٹکی میں نشانہ بنایا گیا۔ بعدازاں نصراللہ گڈانی کراچی میں دوران علاج دم توڑ گئے۔جون کے مہینے میں صحافی ظفر اقبال کو لودھراں اور صحافی خلیل جبران کو لنڈی کوتل میں قتل کیا گیا۔ جولائی میں نوشہرہ میں صحافی حسن زیب کو قتل کر دیا گیا۔ اگست میں گھوٹکی کے مقام پر صحافی بچل گھنیو کو اور ستمبر میں نثارلہڑی کو مستونگ میں نشانہ بنایا گیا۔ 12 دسمبر کو رحیم یار خان میں صحافی ظفر اقبال نائچ کو قتل کر دیا گیا۔صحافی احسان اللہ نسیم کو پی ٹی ایم کے جرگے کی کوریج کی پاداش میں گرفتار کر لیا گیا۔ صحافی زاہدہ راؤ نے اسلام آباد میں کوریج کے دوران پولیس کی طرف سے بدسلوکی سہی۔ یوٹیوبرز خاص طور پر اشرافیہ کے نشانے پر ہیں۔اس وقت پاکستان میں آزادی صحافت سخت دباؤ کا شکار ہے۔ بہت سی آوازیں خاموش ہیں، بہت سے صحافی خودساختہ جلاوطنی گزار رہے ہیں اور کچھ آف ایئر ہیں تو کچھ نے روپوشی میں عافیت سمجھی ہے۔یونیسکو کے مطابق دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل کے 85 فیصد مقدمات حل طلب ہیں اور ان میں قاتلوں کو سزا نہیں ہوئی۔ پاکستان کی طرف دیکھیں تو حکومت ایک سال سے صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کے ساتھ ہونے والے ایم ایل اے کو لٹکائے جا رہی ہے اور ہر بار عدالت سے وقت لینے میں بھی کامیاب ہو جاتی ہے۔جو صحافی قتل ہو گئے ان کے لیے انصاف دور کی بات ہے، جو زندہ ہیں ان کی زندگی بھی اجیرن بنائی جا رہی ہے۔ حکومت صحافیوں کی مشکلات سے پردہ پوشی کر رہی ہے اور عدالتیں، صحافتی یونیز بھی خاموش ہیں۔ ایسے حالات کب تک رہیں گے، یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔