بدین پریس کلب میں صحافیوں کیلئے موبائل جرنلزم ورکشاپ

86

بدین (نمائندہ جسارت)بدین پریس کلب میں موبائل جرنلزم کی اہمیت اور صحافیوں کے صحافتی استعداد کار کو بڑھانے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے سلسلے میں ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا ۔غیر سرکاری ادارے سرسو کے تعاون سے بدین پریس کلب میں منعقد تربیتی ورکشاپ میں بدین پریس کلب اور ایوان صحافت بدین کے مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات سے وابستہ صحافیوں کے علاوہ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ خواتین نے بھی شرکت کی۔اس موقع پر ملک کے سینئر صحافیوں میڈیا ٹرینرز اور موجو ایکسپرٹ قاضی آصف اور نورین شمس نے تربیتی ورکشاپ کے شرکا کو دور جدید اور تیز ترین خبر کی رسائی کے موجودہ تقاضوں کے مطابق موبائل جرنلزم کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے موبائل شاٹ میکنگ، ٹیکنیکس، اسٹوری اور موبائل ٹولز کے استعمال کے بارے آگاہ کرتے ہوئے مختلف ایپس کے ذریعے موبائل سے ویڈیو کی آسان طریقے سے ایڈیٹنگ کرنے اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے طریقہ کار سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی صحافت کو فروغ دینے کا باعث بنی ہے اور ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی نے خبروں کی تیاری کے عمل کو بھی بہت سہل بنا دیا ہے۔صحافت کے ڈیجیٹلائز ہونے سے صحافتی آزادی کو تقویت ملی ہے اور اب ماضی کی طرح کسی دبا? کے تحت حقائق کو روکنا آ سان نہیں رہا ہے۔ رکاوٹ اور بندشوں کے باوجود خبریں کہیں سے کہیں نکل کر عوام تک پہنچ جاتی ہیں، جبکہ موبائل جرنلزم کے منفی استعمال سیٹیژن جرنلزم اور سوشل میڈیا کے فروغ سے ایڈیٹوریل چیک باقی نہیں رہا اور فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کا رجحان بڑھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمارٹ فون بہت تیزی سے ہماری زندگی کا اہم حصہ بن گیا موبائل پر برق رفتاری سے آنے والی اطلاعات نے پوری دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔اب یہ ہر شخص کے لیے بہت آسان ہو گیا ہے کہ وہ کونسی انفارمیشن چاہے اپنے پاس محفوظ کرلے اسے پھیلائے اور اس انفارمیشن کا استعمال کرے اور یہیں سے موبائل جرنلزم کی شروعات ہوتی ہے ۔ میڈیا ٹرینر نورین شمس نے بتایاکہ موبائل جرنلزم انفارمیشن کی ترسیل کا ایک ایسا تیزترین میڈیم ہے جو لگ بھگ مفت ہے ، اس پر استعمال کرنے والے کا پورا کنٹرول ہوتا ہے ،اسی لیے اسے سب سے زیادہ جمہوری بھی کہا جاتا ہے ایک اورخاص بات یہ ہے کہ یہ اپنے قاری یا دیکھنے والے کے درمیان ڈائریکٹ رابطہ بنا لیتا ہے جس سے کوئی بھی آپ کے پبلش کی کسی خبر یا ویڈیو کودیکھتے ہی اپنا تبصرہ آپ تک پہنچا سکتا ہے ۔ سینئر صحافی قاضی آصف کا کہنا تھا کہ موبائل جرنلزم ابھی بڑی حد تک آزاد ،آسان اور محفوظ ہے میڈیم ہے ایسے مقامات تک اس کی پہنچ ہوتی ہے جہاں تک پہنچ پانا عام طور پر مشکل ہوتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے جہاں بڑے بڑے کیمرے کی رسائی ممکن نہیں ہوتی موبائل جرنلسٹ وہاں سے خبریں نکال لاتے ہیں۔ بڑے کیمرے کی جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں ایک خامی یہ ہے کہ اسے چلانے کے لیے الگ سے ایک کیمرہ مین چاہیے۔ٹرینرز کا کہنا تھا کہ جو خوبیاں ایک عام جرنلسٹ کی ہونی چاہیں وہ سب خوبیاں موبائل جرنلسٹ کی بھی ضرورت ہے، بس موبائل جرنلسٹ کو ذرا زیادہ چوکنا رہنا ہے اور اسے ہمہ وقت میدان میں نکلنے کے لیے تیاررہنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں موجود غلطیوں کوتاہیوں ، بدعنوانی ، ناانصافی کی بھرپور نشاندہی ہونی چاہیے جبکہ اچہے اور پرامن معاشرے کے قیام کے لیے مثبت صحافت بھی لازمی ہے اچہے پہلو کو بھی نمایاں کیا جائے۔ ٹرینرز کا کہنا تھا کہ اچھی اسٹوری فوری اپ ڈیٹ کے لیے صحافیوں کو رپورٹنگ بیگ میں اپنے سازو سامان پوری طرح تیار رکھیں ہمیشہ اپنا موبائل ریچارج رکھیں ، موبائل کی میموری خالی رکھیں ، الگ سے میموری کارڈ ضرور رکھیں ، مضبوط نیٹ ورک کا انٹرنیٹ آپ کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ گن مائک ، لیپل مائک ، موبائل کنیکٹر بھی ساتھ موجود ہونا چاہیے ۔موبائل جرنلسٹ کو چاہیے کہ وہ اپنے موبائل اور دیگر آلات کو اچھی طرح جان لے ، اسے اپنے فون کے ضروری ایپلیکیشن کو چلانے میں مہارت ہو،یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ جب کسی خبرکو ریکارڈ کرتے وقت آپ پر بے حد پریشر ہوگا تو اس وقت آپ اپنے موبائل کو کتنی تیزی سے اور کیسے استعمال کریں گے۔اس موقع پر غیر سرکاری ادارے سندھ رورل سپورٹ پروگرام سرسو کے ڈسٹرکٹ منیجر احمد خان سومرو ، سورمی وومن ڈویلپمنٹ پروگرام کی چیئرپرسن عابدہ ماروی سموں ، بدین پریس کلب کے صدر تنویر احمد آرائیں ، سینئر صحافیوں شوکت میمن ، شفیع محمد جونیجو ، عبدالشکور میمن ، عمران عباس خواجہ ، اختر کھوسو ، عبدالحمید سومرو ، انیس الرحمن میمن ، الطاف شاد میمن ، علی محمد شاہانی ، عطا محمد چانڈیو بابو کھوسو ، نصرت جعفری، عبدالطیف زرگر وومن میڈیا ایکٹوسٹ سوڈی کولہی اور دیگر بھی موجود تھے۔ تربیتی ورکشاپ کے احتتام پر شرکا میں سرٹیفکیٹ بھی تقسیم کیے گئے۔