سول سرونٹس بل اورمحنت کشوں کا صبر

74

منگل 17دسمبر 2024 کو قومی اسمبلی میں سید خورشید احمد شاہ نے ریگولر کیے گئے سول سرونٹس اور ملازمین کے حقوق کا تحفظ بل پیش کیا۔ وزیر قانون اعظم تارڑ نے بل کو قانون و انصاف کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ بل میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو بہت پیچیدہ ہیں۔ اسپیکر ایاز صادق نے بل کے حوالے سے کہا کہ بل کو کابینہ کمیٹی کو ارسال کردیتے ہیں۔کمیٹی میں وزارت قانون کے افسروں کو بلالیں۔ نوید قمر نے کہا کہ بل کو کابینہ ڈویژن کی کمیٹی کو ہی ارسال کیا جائے۔اسپیکر کی بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی تجویزپربل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
اس بل کے لیے میں اپنی تحریروں میں لکھ چکا ہوں۔ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان،بلاول بھٹو،سید خورشید احمد شاہ،عبدالحکیم بلوچ، سید آغا رفیع اللہ وغیرہ کے نام خطوط صفحہ محنت کش کے ذریعے بھی انسانی المیہ جنم لینے پر ایوان میں قانون سازی/ قرارداد / پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے آواز اٹھانے کے عنوان سے بھیج چکا ہوں۔ جس میں میں نے لکھا تھا کہ بہترین پیداواری صلاحیت رکھنے والے اداروں میں ہزاروں تعلیم یافتہ ہنرمند ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین سے منسلک اہل خانہ کی لاکھوں میں تعداد ہے۔چار دہائیوں کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ مظلوم طبقہ تمام تر سہولیات سے محروم ہیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے ملک کے دستور کے آرٹیکل 3،4،5،9 اور25 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اکثر اداروں میں مستقل بنیادوں پربھرتیاں کرنے کے بجائے، ڈیلی ویجز پر بھرتیاں کر کے آئین کی مسلسل خلاف ورزیاں کر رہے ہیں۔ جب کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت جس میں تمام شہریوں کو انجمن سازی کا حق ہے، اس حق سے بھی محروم رہے ہیں۔

ملکی صنعتی و کمرشل اداروں کے اندر بین الاقوامی معیار کے مطابق Accuracy میں کام کرنے والے کئی باصلاحیت ہنرمند ڈیلی ویجز ملازمین اپاہج یا معذورہوگئے ہیں،کئی ملازمت کے دوران ہی اس دنیا سے انتقال کر گئے ہیں۔ تو کئی ڈیلی ویجز ملازمین کم سے کم اجرت پر خالی ہاتھ رٹائر ہوگئے ہیں یا ہو رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ60 سال کی عمر پوری کرنے کے بعد جب ڈیلی ویجز کی حیثیت میں کم سے کم اجرت پر ملازمت سے خالی ہاتھ فارغ ہوتا ہے،جس سے سارا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ کئی ڈیلی ویجز والے عمر کے اس حصے میں ہیں جو اب تو نانے اور دادے بھی بن گئے ہیں۔ سماجی قدروں سے کٹی ہوئی یہ نسل اپنی آنے والی نسلوں کو کیا بتائیں گے، وہ تو اپنی جگہ، لیکن دوست و احباب کو ماہانہ آمدنی بتاتے ہوئے اپنا سر شرم سے جھکا دیتے ہیں۔دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسی کوئی مثال ہی نہیں ملتی، کہ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش، ڈیلی ویجز ہی کی بنیاد پر کم سے کم اجرت پر ریٹائر ہو رہے ہوں۔ 2008-13 پیپلز پارٹی کے دور میں آپ کی چیئرمین شپ میں کمیٹی کے ذریعے ایک لاکھ 50 ہزار سے زائد مختلف اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کردیا گیا تھا، لیکن جو اصل حقدار تھے وہ تو آج تک محروم رہ گئے ہیں۔ ڈیلی ویجز ملازمین نے اپنی زندگی (Golden Age)کا حصہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے اور اداروں کو خوشحال بنانے کے لیے وقف کردیا ہے، مگر اب وہی ادارے ان ملازمین کو اون کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔

میں نے تجویز دی تھی کہ جس طرح 1996-1999 کے عرصے میں نکالے گئے ملازمین کی بحالی سروس ایکٹ2010 پی پی سرکار کا بہترین کارنامہ تھا۔اسی طرح 25مارچ 2008 سے لے کر 24 مارچ 2013 تک پیپلز پارٹی کی حکومت کے عرصے کے دوران باقی رہ جانے والے تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولرائزیشن ایکٹ کا قومی اسمبلی سے بل کو منظور کروایا جائے۔ اور قومی اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی جائے کہ ملک بھرکے وفاقی سرکاری اداروں میں انسانی المیہ جنم لے رہے ہیں۔اس کا جنگی بنیادوں پر فوری طور پر قدم اٹھایا جائے۔ تو یہ آپ کا پورے پاکستان کے اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین اور بالخصوص پاکستان مشین ٹول کے ملازمین آپ کے احسان مند رہیں گے۔ اور آپ کی جانب سے ایک مثبت پیغام اور بہترین اقدام ثابت ہوگا۔ کیونکہ یہ فرد واحد کے حصول روزگار کا مسئلہ نہیں، بلکہ ڈیلی ویجز ملازمین سے ہزاروں کی تعداد میں منسلک خاندانوں کے زندہ رہنے کا سوال اور بنیادی انسانی حقوق کا بھی مسئلہ ہے۔The Protection of Rights of Regularized Civil Servants and Employees Bill 2024میں یومیہ اجرت کی اسامی پرتقرر کردہ ملازمین ایکٹ ہذا کے آغاز پرابتدائی ہی تقرری کی تاریخ سے باقاعدہ طور پر تقرر شدہ سول ملازمین متصور ہوں گے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یہ ایکٹ نئے سال 2025 میں مایوس ملازمین میں خوشیاں بانٹے گا۔