پیغام

34

سلامی جمیعت طلبہ اپنی تخلیق ہی سے چیلنجز کے ساتھ نبرد آزمارہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمکش ہی اس کائنات کی اصل ہے۔ نوجوان معاشرے اور ماحول سے کٹ کر نہیں رہ سکتے، ان کے چیلنجز کو انسانیت اور قوم کے چیلنجز کے پس منظر میں ہی درست طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سید مودودی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انسانیت کے مسائل ہمارے مسائل ہیں۔ اس وقت کوئی ایک قوم، ملک، معاشرہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر انسانیت سنگین مسائل سے دوچار ہے، جن میں عدم برداشت، اخلاقی گراوٹ، امن عامہ، ماحولیات، کمزور خاندانی نظام، منشیات و اسلحہ نمایاں ہیں۔ مسائل اور چیلنجز کی فہرست میں تحریک اسلامی اور بالخصوص اسلامی جمیعت طلبہ کو بھی انہی کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کو بہت محدود وقت میں منتخب کام کرنا ہو گا بدلتے ہوئے حالات میں ٹیلنٹ سرکاری اداروں کے بجائے پرائیویٹ اداروں میں منتقل ہو چکا ہے۔ ہمارے لیے سوچنے کا کام یہ ہے کہ باصلاحیت نوجوانوں سے کیسے جڑا جائے؟
بلاشبہ دعوت ازلی وابدی ہے مگر اسے آج کے جوان جذبات سے متعلقہ بنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ عموماً لوگ دولت، منصب، شہرت سے متاثر ہوتے ہیں جبکہ اس کے مقابلے میں جمیعت کے پاس قابلیت، محنت اور حکمت وہ ہتھیار ہیں جن کو استعمال میں لاکر ان قابل نوجوانوں کو دین کی انقلابی دعوت سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہماری صفوں میں باصلاحیت افراد موجود ہوں گے تو دوسروں کے لیے مقناطیس کا کام کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات کہنا بھی ضروری ہے کہ جمعیت سے وابستہ افراد کے لیے دعوت دین اور جہاد فی سبیل اللہ کا یہ کام جز وقتی نہیں بلکہ عمر بھر کا شوق قرار پائے۔ عہد رکنیت میں اس کی تذکیر موجود ہے کہ یہ کمٹمنٹ کسی ایک عمل کسی، ایک دور یا کسی ایک سرگرمی تک محدود نہیں بلکہ زندگی بھر کا سودا ہے۔ میں اسلامی جمعیت طلبہ سے مستقبل میں اپنی اچھی امیدیں استوار رکھتا ہوں اور پوری طرح پُر امید ہوں کہ جمعیت بدلتے ہوئے حالات میں نئے چیلنجز اور نئے امکانات سے پوری طرح واقف و آمادہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ اس شجر سایہ دار کو مزید تناور اور سایہ دار بنائے تا کہ مستقبل میں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اسلام اور پاکستان کے لیے جاری جدوجہد میں سمویا جا سکے۔