شامی تھیٹر میں نئے امریکی ڈرامے کے خدوخال

140

باباالف
صورتحال واضح ہے۔ مشرق وسطیٰ مغربی نفوذ کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے۔ کوئی ایک رہنما بھی نہیں جو عربوں کو غلامی سے نکال لے۔ ایک غدار جارہا ہے تو اس کی جگہ دوسرا غدار لے رہا ہے۔ جو جا رہا ہے یا آرہا ہے امریکا اور اسرائیل کا حمایت یا فتہ۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ امریکی حکام نے اس ماہ کے شروع میں ترکی کو مطلع کیا تھا کہ حلب اور حما جیسے شہروں پر باغیوں کے قبضے کے بعد بھی اسرائیل شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا نہیں چاہتا۔ اسرائیل کبھی نہیں چاہتا تھا کہ بشار وہاں سے چلے جائیں۔ فیدان نے مزید انکشاف کیا کہ 2016 میں ترکی کے دورے کے دوران اس وقت کے امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے انقرہ کو آگاہ کیا تھا کہ ’’واشنگٹن اسد کو گرانے کی مخالفت کرتا ہے‘‘۔ فدان نے کہا کہ ’’اس نے ہمیں بتایا کہ امریکا نہیں چاہتا کہ بشار چلے جائیں‘‘۔ ہم سمجھ گئے کہ یہ واقعی ان کا اپنا موقف نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا موقف ہے‘‘۔

شام کی نئی قیادت سے جو لوگ پر امید تھے وہ اب تک جان چکے ہوں گے کہ ایک پر جوش قوم کے خوابوں کو پھر توڑ ڈالا گیا ہے۔ کوئی موسیٰ نہیںجو اپنی قوم کو جہالت اور پسماندگی سے نکال کر اسلام کی منزل تک لے جاسکے۔ سب کچھ امریکا اور اسرائیل کے منصوبوں کے مطابق اور ان کی خواہشات کے تابع ہے۔ اسرائیل اور اس کی پشت پناہ عالمی قوتیں عربوں کے خلاف جنگ کم وبیش جیت چکی ہیں۔ اسرائیل کی سرحد پر بیٹھی ہوئی ایران کی پراکسی حزب اللہ ہو، فلسطین کے اندر سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والی حماس ہو یا فلسطین کے باہر سے اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرنے والی قوتیں، ان سب کے لیے شام ہی وہ مقام تھا جہاں سے وہ رسد اور قوت حاصل کرتے تھے لیکن اب اسرائیل نے شام کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ لبنان میں بھی اس کے قدم جم چکے ہیں۔ اب خطے سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی راہ میں بھی اسرائیل کے سامنے کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ یہ ایک ایسی الم ناک صورتحال ہے جس میں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ فی الوقت عالم اسلام میں کوئی نہیں جو اس نا مبارک حالات کے راستے میں بند باندھ سکے۔

شام کا مستقبل کیا ہوگا یا اب شامی تھیٹر میں اسٹیج کیے جانے والے نئے ڈرامے کے خدوخال کیا ہوں گے؟ یا شام میں حکومتی نظام کیا شکل وصورت اختیار کرے گا؟ یقینا اہل شام کی بہبود اور فلاح کے نام پر مستقبل کا جو سیٹ اپ بھی تشکیل دیا جائے گا اس میں شامیوں کا حصہ برائے نام ہوگا۔ سب کچھ امریکا اور اسرائیل کی مرضی کے تابع ہوگا۔ مریکی وزیر خارجہ انتونی جے بلنکن نے 12 دسمبر 2024 کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ شام میں ایک عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جو ایک بہتر مستقبل کی راہ ہموار کرے۔ اور اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ یقین دہانی کی جائے کہ داعش دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ’سیرین ڈیموکریٹک فورسز‘ (SDF) انتہائی اہم ہیں، جنہیں ہماری حمایت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے یہ یقینی بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے کہ داعش کو قابو میں رکھا جائے‘‘۔

بلنکن کے بیان میں مستقبل کے تیز رفتار شیطان کی حرکات کے تمام اشارے موجود ہیں۔ جس میں سب سے اہم شام میں امریکا کی مستقل موجودگی ہے۔ داعش کے خلاف جنگ کے بہانے امریکا شام میں اپنی موجودگی کو برقرار رکھے گا۔ داعش کے بارے میں امریکا کا دعویٰ ہے کہ وہ اسد حکومت کے زوال کے بعد پیدا ہونے والی عدم استحکام کی صورتحال کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری طرف امریکا اقوام متحدہ کی طرف سے پابندیاں لگائے ہوئے عسکریت پسند گروہ ہیئت تحریر الشام اور اس کی قیادت ابو محمدالجولانی کی سرپرستی کرتا نظر آتا ہے جو مغرب کی نظر میں آگ اگلتا ہوا سابق دہشت گرد، باغی جنگجو سردار اور حالیہ سیاسی مدبر ہیں جو اسرائیل سمیت سب کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں جن سے امریکا شام کے مستقبل کے بارے میں رابطے کرتا نظر آتا ہے۔ یوں شام میں امریکا ایک دہشت گرد گروہ سے برسرجنگ اور دوسرے دہشت گرد گروہ کے سرپرست کے طور پر آگے بڑھے گا۔

شام میں عسکریت پسند جماعتوں کی امریکا ستائش کرتا نظر آتا ہے۔ یہ اچھے عسکریت پسند اور برے عسکریت پسند کا امریکا کا وہ پسندیدہ کھیل ہے جو وہ اپنے مقبوضہ علاقوں کو تباہ کرنے اور اپنی موجودگی کو دوام دینے کے لیے کھیلتا ہے۔ ان عسکریت پسند جماعتوں سے محبت اور نفرت کے اس کھیل میں اہل شام کی محبت کا کوئی دخل نہیں۔ یہ ایران اور روس کو شکست دینے اور شامی عوام کے خون سے اسرائیل دیوتا کو بھینٹ دینے اور اس کی طاقت میں اضافہ کرنے کا عمل ہے۔ جہاں تک امریکا کا داعش کے خلاف لڑائی کا معاملہ ہے اس میں شامی ڈیموکریٹک فورسز سے بہتر اس کا کوئی اتحادی نہیں۔

بلنکن کے بیان میں شام کی تقسیم کے اشارے بھی موجود ہیں۔ مستقبل کا شام تقسیم شدہ ہو گا۔ اس کا شمالی حصہ، دریائے فرات کے مشرق میں، امریکی قبضے اور اس کے کرد اتحادیوں کے کنٹرول میں رہے گا۔ یہ صورتحال شام کو تقسیم کرنے کا راستہ ہموار کرتی ہے، جہاں کردوں کے لیے ایک خودمختار خطہ قائم کیا جائے گا، جو جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس اور امریکی افواج کی طرف سے مستقل حمایت یافتہ ہو گا۔ کردوں کا یہ خودمختار علاقہ وقت کے ساتھ ایک خودمختار کرد ریاست کی شکل اختیار کر لے گا۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ کردوں کا علاقہ شام کے سب سے زیادہ وسائل سے مالامال خطہ ہے، جہاں تمام اہم تیل کے کنویں واقع ہیں، جو امریکی اور کرد افواج کی موجودگی کے لیے مالی معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح شامی عوام ان تیل کے وسائل سے محروم رہے گی، جبکہ یہ سب داعش کے خلاف دہشت گردی کی ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے بہانے جاری رہے گا! امریکا کی طرف سے داعش کی شام میں واپسی آنے کا دعویٰ ایک ہالی ووڈ پروڈکشن کی طرح ہے، جس کا واحد مقصد شام میں امریکی موجودگی کو برقرار رکھنا ہے جو ایک خوفناک کینسر کی طرح شام کے اقتصادی وسائل کو ہڑپ کرجائے گا۔

ایک صدی ہونے کو آرہی ہے امت مسلمہ تقسیم در تقسیم، ذلت و رسوائی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس کی وجہ بڑی طاقتوں پر انحصار ہے جو ان پر مسلط گھٹیا حکمرانوں کا طرز حکومت ہے اہل شام نے بشار اور اس کے خاندان سے تو نجات حاصل کرلی ہے لیکن کیا وہ بشار کے نظام سے بھی چھٹکارہ حاصل کرسکیں گے اس کے امکانات معدوم ہیں۔ تبدیلی کے نام پر امت نے بہت سے انقلاب برپا کیے تاہم ان میں سے کوئی ایک بھی کامیابی سے ہم کنار نہ ہوسکا۔ عرب بہار کا انقلاب اپنی تیزی اور تندی میں ایک مثال تھا لیکن امریکا اور مغرب نے اسے اس کامیابی سے قابو کیا کہ یہ انقلاب اپنے مقاصد ہی فراموش کر گئے۔ جب تک امریکا شام میں موجود ہے شامی انقلاب کی کا میابی مشکل ہی نہیں محال ہے۔