میں: مجھے خوشی ہے کہ آج تم نے ایک ایسے موضوع کا انتخاب کیا ہے جس پر ہماری نگاہ کم ہی جاتی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ امر ہمارے انفرادی اور مجموعی سماجی رویوں کے تناظر میں ایک توجہ طلب مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ کیوں کہ عامیانہ مذاق اور لایعنی گفتگو ہماری محفلوں، بیٹھکوں میں بہت عام ہوگئی ہے۔ تعمیری اور مثبت سوچ پر مبنی تقریبات اور مجالس کا انعقاد ہمارے معاشرے میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔
وہ: تمہاری بات درست ہے کہ یہ صورت حال اب بڑا مسئلہ بن چکی ہے لیکن جہاں تک اس حوالے سے تقریبات وغیرہ کا معاملہ ہے تو وہ کبھی کبھی نظر آ ہی جاتی ہیں بس ستم یہ ہے کہ وہاں بھی ذائقہ بدلنے کے لیے کسی نہ کسی بھانڈ یا مسخرے کو لازمی بلایا جاتا ہے تاکہ وہاں موجود حاظرین کے تفنن طبع کا کچھ تو خیال رکھا جائے۔ اور جن منتظمین کو اپنا معیار ذرا بلند رکھنا ہوتا ہے وہ انور مقصود کے طنز وتشنیع سے بآسانی اپنا کام نکال لیتے ہیں۔ خیر یہ بات تو برسبیل ِ تذکرہ زباں پر آگئی لیکن اصل معاملہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہوچکا ہے اور فوری توجہ کا متقاضی ہے۔ جیسا کہ تم نے کہا کہ عامیانہ مذاق اور لایعنی گفتگو ہمارے روزو شب کا حصہ بن چکا ہے۔ مگر یہ کوئی آج کی بات نہیں یہ معاملہ تو ہر دور ہر معاشرے میں ایسے ہی رہا ہے عام لوگوں کا انداز اور طور طریقے عموماً سطحی نوعیت کے ہوتے ہیں، ان کے حس مزاح میں پھکڑ پن جھلکتا ہے اور پست مذاقی ہی میں ان کی تفریح ِ طبع کا سامان ہوتا ہے۔
میں: یعنی تم یہ کہنا چاہ رہے ہوکہ ہمارے سماج میں بیہودگی کی حدوں کو چھوتے ہوئے ناشائستہ جملے اور ذو معنی مذاق کا چلن کوئی خاص بات نہیں اور ہمیں اس کی اصلاح اور سدھار کے لیے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کرنا چاہیے؟
وہ: نہیں میرے دوست میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ صورت حال اب پہلے سے زیادہ سنگین ہوچکی ہے کیوں کہ اب یہ بھونڈے اور عامیانہ مذاق محض عام آدمی کی دلچسپی کا مرکز نہیں رہے بلکہ اس حوالے سے آج کے پڑھے لکھے فرد کی ذہنی سطح بھی کم وبیش ایک ہی درجے پہ آگئی ہے۔ کسی بازار سے گزر جائو، یا کسی یونیورسٹی یا کالج کے کوریڈور پر نظر پڑجائے، شادی یا ولیمے کی تقریب ہو، کسی دفتر کی لفٹ یا میٹنگ روم ہو یا کوئی ڈائننگ ہال، سبزی کا ٹھیلہ ہو یا موٹر سائیکل چلاتا کوئی سوار، سہ پہر کی دھوپ ہو یا رات کا پچھلا پہر، کیا بچے، کیا بڑے، کیا مرد، کیا عورت، کیا استاد کیا شاگرد، کیا جاہل کیا عالم ہر شخص اپنے موبائل فون کی اسکرین پر انگلیاں پھیرتا نظر آتا ہے، ایک کلپ اس کے بعد دوسرا کلپ، ایک مِیم کے بعد دوسرا مِیم اور پھر صبح شام دن رات بس یہی ہے ہمارا مصرفِ اوقات۔
ایک اندازے کے مطابق ملک کے کروڑوں موبائل فون صارفین میں سے کم وبیش نوے فی صد افراد اپنی ان ذاتی اسکرینوں پر روزانہ اوسطاً دوسو سے تین سو کلپس دیکھ رہے ہیں۔ ان تصاویر، خاکوں، نقش ونگار اور بے تکے پن سے بھری اولول جلول ویڈیوز میں سے بیش تر میں جو خرافات، بیہودگی، بے سروپا حرکات وسکنات، جملے بازیاں اور فضولیات ہماری سماعتوں اور بصارتوں تک پہنچ رہی ہیں وہی ہمارے دل ودماغ میں مسلسل اپنی جگہ بناتی جارہی ہیں اور دماغ کی اس پروسیسنگ مشین کو جو اِن پٹ مل رہا ہے وہی آئوٹ ُپٹ ہماری غیر سنجیدگی اور عامیانے پن کی شکل میں سامنے آرہا ہے۔ اب تو ایسا لگ رہاہے کہ پوری قوم واضح طور پر دو گروہوں میں تقسیم ہوکے رہ گئی ہے ایک طرف ان بے ہودہ، بے ہنگم اور بے سروپا حرکات کو بڑے فخر کے ساتھ بنانے والے خود فریب اور نام نہاد فن کار ہیں اور دوسری طرف آنکھیں پھاڑپھاڑ کر انہیں دیکھنے اور پسند کرنے والے بے وقوف۔
معاملہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص بھانت بھانت کے ٹی وی چینلوں میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جہاں اس بدذوقی اور بے ڈھنگے پن کو معقولیت کا جامہ پہنا کر قدرے معقول میزبانوں کے ذریعے پیش نہ کیا جارہا ہو جنہیں بھانڈوں کی ناختم ہونے والی فوجِ ظفر موج کی خدمات بھی ہمہ وقت حاصل رہتی ہیں۔ ایک نے رات کو مذاق بنادیا تو دوسرے نے خبر کے ساتھ ناک کا لاحقہ لگا کر خبر کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ بقول غالب
ؔحیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
میں: اور میرے خیال سے یہ بگاڑ ہمارے سماج میں بتدریج پیدا ہوا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب ہمارے ذرائع ابلاغ یعنی ریڈیو ٹی وی وغیرہ سے معلومات عامہ، ذہنی آزمائش، بیت بازی، تقاریر، نعت خوانی اور مقابلہ قرأت جیسے مفید اور ذہن ساز پروگرام مستقل بنیادوں پر نشر کیے جاتے تھے۔ جو بچوں اور بڑوں سب ہی میں ایک مثبت اور تعمیری سوچ پروان چڑھانے کا ذریعہ ثابت ہوتے تھے۔ مگر اس عامیانے پن نے عوام کو شرمندگی اور لاچاری کے اس مقام پر پہنچادیا ہے کہ وہ ٹی وی چینلوں پر ساری دنیا کے سامنے بھکاری بن کرموٹرسائیکل، واشنگ مشین اور استری کے لیے ایک بدتمیز اور بدتہذیب میزبان کی منت سماجت کرتے نظر آتے ہیں۔
وہ: تمہاری بات بالکل درست ہے، اب ہمارے اندر وہ ذوقِ ادب رہا نہ حسنِ نظر، طرزِ کلام کی خُو بُو رہی نہ چاہنے یا چاہے جانے کی آرزو، علم کی بھوک رہی نہ اپنی اصلاح کی تڑپ۔ اب تو ہر ایک دماغ میں بس یہی چلتا رہتا ہے کہ اس نے میری پوسٹ کو لائک نہیں کیا، ابھی اس کی واٹ لگاتا ہوں، یہ کیا سمجھتا ہے مجھے سب کے سامنے ماموں بنا کے پتلی گلی سے نکل جائے گا اور میں اسے چھوڑ دوں گا۔ اس کی ایسی میِم بناکے وائرل کروں گا کہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔
میں: میرے دوست طنز کے تیر چلانے سے یہ زیادہ بہتر نہیں کہ اس کا کوئی تدارک کیا جائے اور اس منفی اور لاحاصل سماجی رویے کو مثبت سمت دینے کے لیے کوئی تدبیر کی جائے۔
وہ: جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ اس کا حل بہت آسان ہے بس دماغ کی پروسیسنگ مشین میں جانے والے اِن پٹ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم میں سے ہر فرد اپنی اپنی اسکرین کو بند کرکے دل کی دنیا کو روشن کرے اور اسے قرآن کے نور سے منورکرلے تو اس کے نتیجے میں جو آئوٹ پٹ سامنے آئے گا وہ نہ صرف رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ثابت ہوگا بلکہ ساری دنیا کے مثال بھی بنے گا اور میدان حشر میں انسان خود کو ملنے والے لائکس گنتے گنتے تھک جائے گا۔
آج کے لیے بس اتنا ہی، سماج کے اس رویے اور کیفیت پر یہ فی البدیہہ قِطعہ سنتے جائو۔
میں: ضرور ضرور، ارشاد
وہ:
میں ہوں کوا، چلوں گا ہنس کی چال
چاہے ہو جائوں جس قدر بے حال
اپنی خُو سے نہ باز آئوں گا
دھوکے سے جو بنا رہا ہوں مال