پیر صاحب پگاڑہ کا دورہ؛ سیاسی پزیرائی کا امکان؟

300

موجودہ پیر صاحب پگاڑو خنکی کے اس موسم میں اپنے مریدوں میں روحانی سیاسی حرارت پیدا کرنے کے لیے ’’دیدار‘‘ کرانے اور نصیحت و رہنمائی کرنے کے سالانہ دورے پر ہیں وہ اپنے مریدوں کے بڑے بڑے اجتماع سے خطاب کرچکے ہیں جن میں بلامبالغہ ہزاروں افراد جن میں مرد و زن، بوڑھے جوان، اور خواتین عقیدت کی پلکی بچھا کر شریک ہوئے اور بھارت سے بھی آکر مریدین نے اس سعادت کو پایا۔ پیر صاحب پگاڑو خاندان ان کے والد محترم کے دور تکسندھ کی سیاست کا بادشاہ گر ہوا کرتا تھا اور سندھ امیں قتدار کے چشمہ پیر جوگوٹھ سے نکلتے تھے اور وہ فوج سے تعلقات کا کھلم کھلااظہار کرتے اور اُن کے جانثار ’’حر‘‘ بھارتی جارحیت پر سندھ کے دفاع پر جان لٹاتے رہے یہ دوطرفہ ملک کی سلامتی اور سیاست کی بدحالی کو کنٹرول رکھنے کے کام آیا کرتی تھی۔ مگر پھر بے اعتنائی کا دور نامشرف شروع ہوا تو حیدرآباد میں ایک بڑے جلسہ عام میں پیر صاحب پگاڑو نے کڑوی کسیلی بات کرکے حکمراں جماعت کے ہاتھ کے توتے اڑا دیے تو پھر پراسرار موت کی لڑی میں پرو دیے گئے۔ یوں سندھ کی وحدت لسانی کی ایک مضبوط لڑی ٹوٹ گئی جو لسانی جھگڑوں میں ایک مضبوط اور سیاست میں اعتدال کڑی تھی پھر موجودہ پیر صاحب پگاڑو کی گدی نشینی کے سوال پر خلیفہ میں اختلاف اُٹھے قرعہ فال موجودہ پیر صاحب پگاڑو صبغت اللہ کے نام نکلا اور کئی خلیفہ معزول ہوئے اور یوں اس گدی کو ضعف لاحق ہوا۔ تو پی پی پی پروان چڑھنے بلکہ چڑھائی جانے لگی اور وہ قوم پرست علٰیحدگی پسند کے توڑ کے لیے تیار کی جانے لگی اور اقتدار کی راہیں اُس کے لیے ایک معاہدہ تحت کشادہ ہوئیں مگر یہ سونا بھی کان کھائے لگا تو پی پی مخالف قوتوں کا اتحاد اس کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے جی ڈی اے کے نام سے تشکیل پایا۔ ایک جی ڈی اے رہنما نے بتایا کہ ہم کو متحدہ کیا گیا۔

2018ء کے انتخاب میں تبدیلی کی خوش خبری سنائی مگر پھر ایک مرتبہ جی ڈی اے نے دھوکا کھایا اور اب وہ دو کوڑی کی عزت بھی نہیں رکھتی۔ ملک کی بدلتی صورت حال میں فوج ہی سب کچھ ہے کہ چھوٹی رسی پکڑنے کے لیے پیر صاحب پگاڑو صبغت اللہ مریدیں کو نصیحت میں فوج سے وابستہ رہنے کو ملک کی سالمیت کا درس دے رہے ہیں۔ اور اپنی صفیں درست کرنے کے دورے پر نکلے ہیں اور روحانی پزیرائی تو پارہے ہیں مگر کیا سیاسی پزیرائی بھی حاصل ہورہی ہے؟ یہ وقت کا اہم سوال ہے جس کا مشکل جواب ہے۔ سندھ کے عوام کو پی پی پی نے مال کی مٹھائی کا موالی بنادیا اور یہ چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی۔ پیر صاحب پگاڑو کے گڑھ سانگھڑ جو ناقابل شکست تھا وہ بھی اس مال کے فتنہ سے متاثر ہو کر ہاتھ سے نکل چکا ہے اب جتوانے والی قوت پر تکیہ ہے جو فارم 47 کی صورت میں کمال دکھا چکی ہے اس کا آسرا بچا ہے۔ پیر صاحب پگاڑو فوج کو پیغام دے رہے ہیں کہ؛ کبھی ہم تم بھی تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو۔ اس سے قبل مخدوم گھرانے کے سربراہ بھی فوج کے رطب لسان ہوئے اور پی پی پی پر نکتہ چین پارٹی میں ہوتے ہوئے، وزیرداخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا کہ مخدوم شاعری کریں۔ سیاست ان کے بس بات کی نہیں اور مخدوم کے خاص افراد پکڑ کر اس گھرانے کی کلائی مروڑ کر فریال تالپور کے حضور گلدستے کے ساتھ لاکھڑا کیا۔ یہ بھی قارئین کو بتاتے چلیں کہ پیر صاحب پگاڑو اور مخدوم میں سنگین نفرت ہوا کرتی تھی، پیر صاحب پگاڑو کے مرید ہالا شہر سے گزرتے ہوئے نفرت سے منہ ڈھانپ لیا کرتے تھے۔ اب حالات، واقعات نے اس دونوں گھرانوں کو ملا دیا کہ آئو مل کر کریں آہ و زاریاں، مگر اب دونوں مل کر بھی وہ کچھ نہیں جو ماضی میں ہوا کرتے تھے۔ ہاں یاد آیا کہ مرحوم پیر صاحب پگاڑو نے وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھ کر جماعت اسلامی سے غیر اعلانیہ اتحاد کیا یوں وہ محمد خان جونیجو کو وزیراعظم پاکستان بنانے میں کامیاب ٹھیرے اور کراچی کی میئر شپ کے ساتھ ٹنڈو آدم کی بلدیہ کی چیئرمین شپ بھی جماعت اسلامی کو ملی۔ اب کراچی میں ایم کیو ایم کا گند صاف کرنے کے لیے جماعت اسلامی دن رات ایک کیے ہوئے ہے تو اندرون سندھ پی پی پی کے توڑ کے لیے پیر پگاڑو سرگرم ہیں۔

پی پی پی نے اربابوں، تالپوروں، میروں، جتوئیوں، سیدوں، راہو، انڑ، جیسی سیاسی قوتوں کے تختے نکال دیے اب ان کی رفو گری کا کام آسان نہیں رہا۔ یہ مشکل مرحلہ ہے جو دیہی اور شہری علاقوں میں جڑ پکڑ چکا ہے، اکھیڑنا بڑی قوت کا سہارا مانگتا ہے۔

سندھ میں ترقی کاغذوں میں ہوئی ہے اور بدحالی، اور کھنڈرات لوٹ کی داستانیں سنا رہے ہیں اور 20 سالہ پی پی پی دور اقتدار میں وہ نسل پروان چڑھی ہے کہ جو اصول و ضابطہ کو نہیں مال کو حل قرار دیتی ہے۔ سندھ لاقانونیت کا شکار ہے۔ کراچی اور اندرون سندھ کی پروان چڑھائی سیاسی قوتیں ایم کیو ایم اور پی پی پی کا توڑ جب ہوسکے گا جب ان کے سوتے جو گیٹ 4 سے کھلتے ہیں۔ مگر وہ تو اب تک دونوں خربوزے ہاتھ میں رکھنے کے موڈ میں نظر آتی ہیں۔ یہی پالیسی سندھ کی تباہی کا باعث ہے۔ کیا آنے والے انتخابات کسی تبدیلی کا باعث ہوں گے۔ ووٹرز ہتھکنڈوں سے مایوس ہونے لگے ہیں۔ سندھ کی بقا ملک کی بقا ہے۔ سندھ باب الاسلام ہے، خصوصی توجہ کا طالب ہے! ہوش کے ناخن لو۔